بھارتی پارلیمان کے نزدیک ہی کسانوں کا انوکھا احتجاج  

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 22 جولائی 2021 15:20

بھارتی پارلیمان کے نزدیک ہی کسانوں کا انوکھا احتجاج  

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2021ء) بھارت میں زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والی کسان تنظیموں کے بعض رہنماؤں اور کارکنان کو 22 جولائی جمعرات کو دارالحکومت دہلی میں سخت شرائط کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت دی گئی، جہاں کسانوں نے زرعی قوانین کے خلاف جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر پولیس نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے۔

اس وقت بھارتی پارلیمان کا مونسون اجلاس جاری ہے اور جنتر منتر کا علاقہ پارلیمان سے کچھ میٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے۔ زرعی قوانین کی مخالفت کے لیے کسان رہنماؤں نے بھی پارلیمان کی طرز پر اپنا پہلا اجلاس کیا اور اس دوران حکومت کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کی گئی۔

کسان رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک پارلیمان کا اجلاس چلے گا، کسان رہنما بھی ہر روز جنتر منتر میں اسی طرز کا ایک اجلاس منعقد کریں گے جس طرح پارلیمان میں اسپیکر اجلاس کا اہتمام کرتا ہے۔

(جاری ہے)

ان اجلاسوں میں متنازعہ زرعی قوانین پر بحث کی جائے گی۔

پارلیمان کا یہ اجلاس نو اگست تک چلنے کی امید ہے اور اسی حساب سے جنتر منتر میں کسانوں کا یہ دھرنا بھی جاری رہے گا اور ہر دن اجلاس بھی ہوگا۔ کسان رہنما یوگیندر یادو کا کہنا تھا، "ہم دکھائیں گے کہ پارلیمان کا صحیح معنوں میں اجلاس کیسے چلایا جاتا ہے۔"

پولیس نے تقریبا دو سو افراد کو دہلی میں آنے کی اجازت دی تھی جس میں بعض کسان رہنما اور کارکنان شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق انتظامیہ نے محدود پیمانے پر کسانوں کو طویل دھرنے کی اجازت دی ہے تاہم ایک دن کے اندر دو سو سے زیادہ افراد کی شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اس برس جنوری میں یوم جمہوریہ کے موقع پر کسان دارالحکومت دہلی میں جب احتجاج کے لیے داخل ہوئے تھے تو اس وقت پر تشدد مظاہرے اور زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ بہت سے مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئی تھیں اور بہت سے لوگ پابندی کے باوجود لال قلعے میں داخل ہو گئے تھے۔

پارلیمان میں بھی ہنگامہ آرائی

جمعرات کو جس وقت کسان جنتر منتر میں اپنی ریلی کر رہے تھے اسی وقت پارلیمان میں بھی حزب اختلاف کی جماعتیں کسانوں کے مسائل اور متنازعہ زرعی قوانین جیسے امور کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس قدر ہنگامہ برپا ہوا کہ اجلاس کو مسلسل تیسرے روز بھی ملتوی کرنا پڑا۔

بعدازاں راہول گاندھی کی قیادت میں کئی ارکان پارلیمان نے پارلیمان کی عمارت کے سامنے نصب مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سائےن میں کسانوں کی حمایت میں دھرنا دیا اور اس معاملے پر حکومت کے رویے پر شدید نکتہ چینی کی۔

راہول گاندھی کا کہنا تھا، "وہ جھوٹ، بے انصافی اور غرور پر اڑے ہیں۔ ہم سچائی کے راستے پر بے خوف متحد ہو کر یہاں کھڑے ہیں۔

کسان زندہ باد۔"

کسانوں کے خدشات

مودی حکومت نے گزشتہ برس مونسون اجلاس کے دوران ہی متنازعہ زرعی قوانین کو منظور کیا تھا۔ اس کے فوری بعد ان قوانین کے خلاف کسان تنظیموں نے متعدد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے جو اب ایک تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے۔ گزشتہ نومبر سے دارالحکومت دہلی کے مضافات میں ہزاروں کسانوں کا دھرنا جاری ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک بات چیت کے گیارہ ادوار بھی ہو چکے ہیں تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ حکومت نے ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کیا ہے لیکن کسان تنظیمیں ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات ضروری ہیں اور اس سے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔

چالیس سے زائد کسان یونینوں کی مشترکہ تنظیموں کے متحدہ کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے پہلے پارلیمان کا محاصرہ کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم سکیورٹی فورسز نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس تحریک میں کسانوں اور مزدوروں کے علاوہ خواتین، دلت، قبائلی، بے روزگار نوجوان اور سماج کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک پرامن ہے اور جب تک حکومت کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی وہ اس وقت تک دہلی کی سرحد سے نہیں اٹھیں گے اور دھرنا جاری رہے گا۔ کسان رہنماؤں نے متنبہ کیا ہے کہ حکومت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ کسان دہلی کی سرحد چھوڑ کر چلیں جائیں گے۔