پاکستان اور افغانستان کے درمیان سوشل میڈیا پر جنگ میں شدت

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 23 جولائی 2021 11:40

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سوشل میڈیا پر جنگ میں شدت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2021ء) پاکستان کے قومی سلامتی مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کے ایک ٹوئٹ کے جواب میں جمعرات کے روز ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں کے 'احمقانہ بیانات‘ سے خود افغانستان کی بے عزتی ہو رہی ہے اور یہ عہدیدار جان بوجھ کر پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

معید یوسف نے ایک سے زائد ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا،”افغانستان کو روزانہ اس طرح کے احمقانہ بیانات سے شرمندہ کیا جا رہا ہے، افغانوں کو یقین ہونا چاہیے کہ ہر کوئی ان غیر سنجیدہ عناصر کے مذموم ایجنڈے کو دیکھ سکتا ہے۔"

انہوں نے ایک دیگر ٹوئٹ میں کہا،”چند بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر جو بدقسمتی سے ہمارے افغان بہن بھائیوں پر بطور اعلیٰ عہدیدار کے مسلط ہیں، کی جانب سے تلخ اور غلط بیان بازی،مسلسل دوطرفہ تعلقات کی خرابی کی وجہ بن رہے ہیں جس کا مقصد اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا ہے۔

(جاری ہے)

"

پاکستان کے قومی سلامتی مشیر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد، افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے تعاون پر شرپسند عناصر کے اثرات پڑنے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا،''پاکستان افغانستان میں جامع سیاسی حل کی خاطر سہولت کاری جاری رکھنے کے لیے بدستور پرعزم ہے۔ اسی حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں صدر اشرف غنی سے ملاقات پر اتفاق کیا تھا۔

"

سوشل میڈیا پر یہ جنگ کیسے شروع ہوئی؟

سوشل میڈیا پر دونوں ملکوں کے اعلی حکام کے درمیان تکرار کا حالیہ سلسلہ افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کے ایک ٹوئٹ اور اس کے ساتھ منسلک تصویر سے شروع ہوا۔

افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے بدھ کو ایک ٹوئٹ کی تھی جس میں منگل کے روز نماز عید کے دوران افغان صدارتی محل کے قریب ہونے والے راکٹ حملوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ کے ساتھ سقوط ڈھاکہ پر پاکستانی جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی جانب سے بھارتی جنرل کے سامنے سرینڈر دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے تصویر بھی پوسٹ کی تھی۔

افغان نائب صدر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا،”ہماری تاریخ میں ایسی کوئی تصویر نہیں ہے اور نہ ہی ہو گی۔ ہاں میں منگل کو راکٹ حملے کے دوران کچھ دیر کے لیے گھبرا گیا تھا۔

لہذٰا پاک ٹوئٹر اٹیکرز اس تصویر کا غم ہلکا کرنے کے لیے دہشت گردی اور طالبان کی مدد حاصل کرنے کے بجائے کوئی اور راستہ تلاش کریں۔"

پاکستانی فوج پر افغان نائب صدر کے اس بالواسطہ تنقید پر سب سے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے جوابی ٹوئٹ کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان آپ (امراللہ صالح) جیسے دغا بازوں کا نہیں بلکہ بہادر افغانوں کا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا،”آپ جیسے بزدلوں کو افغانستان اور خطے میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں، وقت آنے پر آپ لوگ سب سے پہلے ملک سے بھاگیں گے۔"

سوشل میڈیا پر جنگ ایک عرصے سے جاری ہے

امر اللہ صالح نے چند دنوں قبل اپنے ایک متنازع بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاک فضائیہ افغانستان کے کئی علاقوں میں طالبان کو فضائی مدد فراہم کر رہی ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی ایئر فورس نے افغان فوج کو دھمکی دی تھی کہ وہ طالبان کے خلاف کارروائی سے گریز کریں۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

افغانستان نے حال ہی میں اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کے بعد افغان سفیر سمیت اپنا پورا سفارتی عملہ کابل بلا لیا تھا۔

پاکستان نے افغان حکومت کے اس اقدام پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد سے افغانستان کے سفیر کی بیٹی کے اغوا کے معاملے کو 'سازش' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کوئی اغوا نہیں تھا بلکہ یہ انٹرنیشنل ریکٹ اور سازش ہے۔