افغان طالبان نے امن معاہدے کیلئے افغان صدر کے استعفے کا مطالبہ کردیا

افغان صدر کو عہدے سے ہٹائے بغیر امن معاہدہ نہیں ہو سکتا، افغانستان میں طاقت کے بل بوتے پر قبضہ نہیں چاہتے،افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے نئی حکومت کی ضرورت ہے۔ ترجمان افغان طالبان اور دوحہ مذاکراتی گروپ کے رکن سہیل شاہین کا انٹرویو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعہ 23 جولائی 2021 19:22

افغان طالبان نے امن معاہدے کیلئے افغان صدر کے استعفے کا مطالبہ کردیا
کابل (اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 جولائی2021ء) افغان طالبان نے امن معاہدے کے لیے افغان صدر کے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے، طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ افغان صدر کو عہدے سے ہٹائے بغیر امن معاہدہ نہیں ہو سکتا، افغانستان میں طاقت کے بل بوتے پر قبضہ نہیں چاہتے،افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے نئی حکومت کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان طالبان اور دوحہ مذاکراتی گروہ کے رکن سہیل شاہین نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کی جانب سے قابل قبول مذاکرات کے بعد نئی حکومت کابل میں قائم ہوجائےگی تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں گے۔

میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیں کامیاب نہیں ہوئیں لہذا ہم اسی فارمولے کو دہرانا نہیں چاہتے۔

(جاری ہے)

تاہم انہوں نے اشرف غنی کی مستقل حکمرانی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور انہیں جنگی راہب قرار دیا اور ان پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے عیدالاضحٰی کے اسلامی دن کے روز بھی تقریر کے دوران طالبان کے خلاف کارروائی کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

نیوز ایجنسی این این آئی کے مطابق سہیل شاہین نے اشرف غنی کے حکومت کرنے کے حق کو مسترد کرتے ہوئے 2019 کے انتخابات میں سامنے آنے والے بڑے فراڈ کی نشاندہی کی۔یاد رہے کہ اس انتخابات میں اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبد اللہ دونوں نے اپنی جیت ظاہر کرتے ہوئے خود کو صدر قرار دیا تھا، بعد ازاں ایک معاہدے کے بعد اب عبداللہ عبداللہ حکومت میں دوسرے نمبر پر ہیں اور مصالحتی کونسل کے سربراہ ہیں۔

واضح رہے کہ اشرف غنی نے اکثر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اس وقت تک عہدے پر رہیں گے جب تک نئے انتخابات اگلی حکومت کا تعین نہیں کردیتے۔گزشتہ ہفتے کے آخر میں عبداللہ عبداللہ نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی سربراہی کی تھی۔جس کا اختتام مزید مذاکرات کے وعدوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں اور بنیادی انفرا اسٹرکچر کے تحفظ پر ترجیح کے ساتھ ہوا تھا۔

سہیل شاہین نے مذاکرات کو ایک اچھا آغاز قرار دیا تاہم انہوں نے کہا کہ حکومتیں بار بار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہیں جبکہ اشرف غنی کا اقتدار میں رہنا طالبان کے سرینڈر کرنے کے مطالبے میں رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ مفاہمت نہیں چاہتے مگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی جنگ بندی سے پہلے ایک نئی حکومت کے لیے معاہدہ ہونا چاہیے جو ہمارے اور دیگر افغانوں کے لیے قابل قبول ہو، پھر جنگ نہیں ہوگی۔

اس نئی حکومت کے تحت خواتین کو کام کرنے، اسکول جانے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی تاہم انہیں حجاب یا سر پر اسکارف پہننا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو گھر سے نکلنے کے لیے ان کے ساتھ مرد سربراہ کی ضرورت نہیں ہوگی اور نئے قبضہ ہونے والے اضلاع میں طالبان کمانڈروں کو یہ حکم ہے کہ یونیورسٹیز، اسکولوں اور بازاروں میں پہلے کی طرح کام جاری رہے گا جس میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت بھی شامل ہے۔

سہیل شاہین نے کہا کہ چند طالبان کمانڈرز نے جابرانہ اور سخت رویے کے خلاف قیادت کے احکامات کو نظرانداز کیا ہے اور ان میں سے متعدد کو طالبان کے ایک فوجی ٹربیونل کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور انہیں سزا دی گئی ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔سہیل شاہین نے کہا کہ کابل پر فوجی دباؤ ڈالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور اب تک طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے سے خود کو روک لیا ہے۔

تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ نئے قبضہ کیے گئے اضلاع سے ملنے والے اسلحہ اور سازوسامان کے بعد وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میدان جنگ میں زیادہ تر کامیابی انہیں لڑائی سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اضلاع جو ہمارے پاس آچکے ہیں اور فوجی دستے جو ہمارے ساتھ شامل ہوچکے ہیں، وہ بات چیت کے ذریعے ہی آئے ہیں لڑائی کے ذریعے نہیں، لڑائی سے ہمیں صرف 8 ہفتوں میں 194 اضلاع حاصل کرنے میں بہت مشکل ہوتی۔