افغانستان اور وسطی ایشیا میں امریکی حکمت عملی

DW ڈی ڈبلیو اتوار 25 جولائی 2021 11:00

افغانستان اور وسطی ایشیا میں امریکی حکمت عملی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2021ء) افغانستان میں امریکی فوج نو ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے دو ماہ بعد داخل ہوئی تھی۔ ابتدا میں ان فوجیوں کی تعداد محض ایک ہزار تین سو تھی۔ ان فوجیوں کا تعلق اسپیشل آپریشن کی رجمنٹ میرینز سے تھا۔ اس تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور سن 2010 میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی تھی۔

ان فوجیوں کی تعیناتی کا بنیادی مقصد القاعدہ اور طالبان کی سرکوبی تھا۔

افغانستان: طالبان کے خلاف امریکی فضائی حملے جاری

امریکی فوج کی آمد اور انخلا

افغانستان میں امریکی فوج کی تعیناتی کو نو برس گزرے تو خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے پاکستان میں ٹھکانے پر بظاہر خفیہ فوجی کارروائی کی گئی اور اس میں بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

پھر گیارہ برسوں بعد امریکا نے اپنے فوجیوں کی واپسی شروع کر دی اور اس وقت صرف چھ سو فوجی باقی رہ گئے ہیں۔

ان میں بھی زیادہ میرینز ہیں۔ میرینز کور کے فوجیوں کو کمانڈو بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی ذمہ داری میں کابل میں امریکی سفارت خانے کی سکیورٹی اولین مقصد ہے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن اکتیس اگست سے قبل تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی کے تناظر میں تاجکستان میں بڑی جنگی مشقیں

نئی امریکی حکمت عملی

ابھی تک افغانستان کے بارے میں صدر جو بائیڈن کی انتطامیہ نے کوئی واضح جامع پالیسی کے خد و خال ظاہر نہیں کیے ہیں، جن سے معلوم ہو سکے کہ واشنگٹن اس علاقے کے بارے میں کون سے مقاصد کی تکمیل اور مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ مبصرین کے مطابق جو بھی امریکی پالیسی ترتیب دی جائے گی، وہ علاقائی جغرافیائی سیاسی اور جغرافیائی اقتصادی بنیاد پر ہوں گے اور ان میں اس کا تعین کیا جائے گا کہ کون کون سے قومی اور بین الاقوامی مفادات کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

امریکا کے قومی سلامتی کے تجزیہ کار اور سینٹر برائے اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (CSIS) کے انتھنی کورڈسمین کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی خاموشی سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سردست کوئی منصوبہ بنانا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا تعین کرنا مشکل ہے کہ آیا طالبان ملک کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ کورڈسمین کے مطابق اس صورت حال میں بائیڈن انتظامیہ کی کسی اسٹریٹجی کے بارے میں معلوم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

وسطی ایشیا کے لیے کوئی نئی حکمت عملی؟

اس وقت وائٹ ہاؤس کے حکام، وزارت خارجہ، پینٹاگون اور دوسری ایجنسیوں کے وہ اہلکار، جو امریکی خفیہ اداروں سے وابستہ ہیں، کے تجزیے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغانستان میں سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کی صورت حال کا انتظار کیا جائے۔ انتھونی کورڈسمین کے نزدیک یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے اور واشنگٹن کا نکتہ نظر ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔

طالبان نے اسٹریٹیجک برتری حاصل کر لی ہے، امریکا

تجزیہ کار کورڈسمین کے مطابق افغانستان میں پوری طرح انخلا سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ امریکا وسطی ایشیائی ریاستوں سے بھی صرفِ نظر کر لے گا اور ان ریاستوں کو چین یا روس کے زیر اثر ہوتا دیکھے گا۔

کورڈسمین کے مطابق موجودہ امریکی حکومت وسطی ایشیا کے بارے میں اوباما انتظامیہ کی اس پالیسی پر عمل کرے گی، جس پر ٹرمپ انتظامیہ بھی عمل پیرا رہی ہے۔

یہ پالیسی سابق صدر اوباما کے دور میں سن 2011 میں شروع کی گئی تھی۔

افغانستان امریکی فوج کے بغیر

مبصرین کے مطابق امریکی فوج کے انخلا کے بعد علاقائی طاقتوں روس اور چین کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک پاکستان و ایران بھی ایک نئی حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ افراتفری کا شکار افغانستان خطے میں عدم توازن کا باعث بن سکتا ہے اور اس میں علاقائی قوتیں مشکل توازن قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اب افغانستان میں امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود نہیں رہے گا کیونکہ اس ملک سے امریکی سکیورٹی کو مزید خطرات لاحق ہونے کا امکان موجود نہیں ہے۔ اب صرف اچھے کی امید کی جا سکتی ہے۔

اشٹیفان زیمنز (ع ح/ا ا)