لاک ڈائون سے بحرانات جنم تو لے سکتے ہیں کروناپر قابو نہیں پایاجاسکتا،محمدسلیم خاں

کروناکاخوف اپنی جگہ لیکن ملک میں کئی پہلوایسے موجودہیں جن پر کرونا سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے

اتوار 25 جولائی 2021 18:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جولائی2021ء) بزم محبان شہید وطن حضرت ظہورالحسن بھوپالیؒ کے بانی ومرکزی خادم محمدسلیم خاں نے سندھ حکومت کی جانب سے کروناوبا کے زور کو روکنے کے لئے ایک بارپھر سخت لاک ڈائون کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ کاروباری اوقات کم کرنے سے وبا کم ہونے کا تاثر دینے والوں کو کہیں سے ہدایات مل رہی ہوں گی،تبھی وزیراعلیٰ سندھ بڑی چابکدستی سے اپنے فرائض منصبی اداکرنے پر مجبورہیں، یہ بات ایک حقیقت ہے کہ کروناایک ڈرائونی وبا ہے جس سے لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہے، اسی لئے پوری سرکاری مشینری حرکت میں آتی ہے جس پر انہیں جتنابھی خراج تحسین پیش کیاجائے کم ہے، مگر چند ایک پہلوایسے بھی ہیں جن پر کروناسے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، کروناوباسے مرنے والوں کی تعداد گننے والے ذرایہ بھی بتائیں کہ پاکستان کی جیلوں میں کتنے لوگ بے گناہ اور معمولی معمولی مقدمات میں قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں،ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک حادثات کاشکار ہوکر کتنے لوگ جان کی بازی ہارجاتے ہیں اور کتنے لوگ سالہاسال بسترعلالت پر رہتے ہیں ،کتنے لوگ ناجائز مقدمات کے پیش نظر عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہیں ،ملک میں کتنے لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں حتیٰ کہ اپنے اہل خانہ کو بھی موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں،کتنے لوگ روزانہ کی بنیاد پر اسٹریٹ کرائمز کا شکارہوکر اپنے موبائل، موٹرسائیکل،کار اور دیگر سامان، ضروری کاغذات سے محروم ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، کتنے نوجوان اپنے ہاتھوں میں تھامی ڈگریوں کو لے کر روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں، کتنے مزدور صبح سے شام تک اپنے اڈوں پر بیٹھ کر شام کو بھوکے پیاسے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ،کتنے لوگ سرکاری ہسپتالوں میں لائنوں میں لگنے کے باوجود علاج کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں ،کتنے لوگ چرس، شراب ودیگر نشوں کی لت میں مبتلاہیں ،کتنے لوگ پینے کے پانی کے حصول کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں،کتنے لوگ اپنی غربت کے پیش نظر اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے محروم ہیں ،کتنے لوگ ہیں جوکرائے کے مکان میں رہتے ہوئے مالک مکان کے جائز وناجائزاحکامات سے پریشان ہیں، کتنے لوگ ہیں جو صبح شام ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے گھنٹوں بس اسٹاپوں پر گزاردیتے ہیں ،کتنے لوگ ہیں صبح اور شام میں سوئی گیس نہ ہونے کی وجہ سے کھاناپکانے سے محروم رہتے ہیں اور ہوٹلوں سے کھانامنگواکرکھاتے ہیں،کتنے لوگ ہیں جو ابلتے گٹر بہتے ہوئے گندے پانی اور کچرے کے انبار میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، اسی طرح کے سینکڑوں بنیادی مسائل میں گھری ہوئی قوم کو چھٹکارادلانے کے لئے بھی اسی چابکدستی سے کام کرنے کی ضرورت ہے،یادرکھو کہ کروناکی آڑ میں عوام الناس کو پابندیوں کی ہتھکڑیوں میں جکڑنے والوں کو عوام الناس کے حقوق دینے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی،یہ عوام بہت سمجھدار ہے،ہرچیز کا جائزہ لے رہی ہے،جب بھی یہ بیدارہوگی تو پھر سنبھالنامشکل ہوگا۔

(جاری ہے)

کروناوبا کی روک تھام کے لئے کوئی مناسب انتظامات کرنے ہوں گے، کاروباری اوقات کی تبدیلی، شادی ہالوں، سنیماہالوں اور اسکول مدارس، مزارات کی بندش سے کوئی نیا بحران تو پیداہوسکتاہے کروناوبا پر قابونہیں پایاجاسکتا۔انہوں نے کہاکہ جوحکمران خود عیش کریں ایئر کنڈیشنڈ گھر، دفاتراور گاڑیاں استعمال کریں، تمام سرکاری مراعات حاصل کریں اور لوگوں کو کہیں کہ تم گھروں میں قید ہوجائو، یہ قوم کے ساتھ مذاق نہیں تواور کیاہے۔

بجلی گیس اور پانی فراہم کرنے والے ادارے اسن کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے توعوام بھی سڑکوں میدانوں اور بازاروں میں ہی نظرآئے گی۔حکمرانوں کو سوچناچاہئے کہ یہ ٹوپی ڈرامہ کب تک چلے گا،عوام کو بے وقوف بنانے یاسمجھنے والے دراصل خود نالائق ونااہل ہیں ان کے پاس حالات سے نمٹنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے، یہ اقتدار کے نشے میں چورچور ہیں عوام کے درد کا احساس باالکل نہیں ہے، حکمرانوں کو کل عوام بھی ہوناہے ،واپس اختیار سے محروم بھی ہوناہے، کچھ نہیں تو مرکر اللہ کوجواب بھی دیناہے ،اب سوچ لو کہ غریب عوام کو گھروں میں قید کرکے پانی، گیس ،بجلی سے محروم رکھ کر اللہ تعالیٰ کو کیاجواب دوگے،ہم تو سمجھارہے ہیں تم سمجھو یانہ سمجھو تمہاری مرضی۔