بلوچستان میں پی پی ایل کے گیٹ پر 400کے قریب ورکرز ہڑتال پر ہیں متعلقہ اداروں کا کوئی بندہ تک نہیں گیا، سرفراز بگٹی

قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں چاروں صوبوں کے چیف ا نسپکٹر مائنز کو طلب کر لیا، گھریلو سلنڈرز کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار پاک روس پائپ لائن 1040کلومیٹر پر مشتمل ہو گی، 2.25سے 2.5ارب ڈالر کا منصوبہ ہے 74فیصد پاکستان اور باقی روس کے پاس ہو گا،بریفنگ

پیر 26 جولائی 2021 17:56

بلوچستان میں پی پی ایل کے گیٹ پر 400کے قریب ورکرز ہڑتال پر ہیں متعلقہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جولائی2021ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم بتایاگیا ہے کہ پاک روس پائپ لائن 1040کلومیٹر پر مشتمل ہو گی، 2.25سے 2.5ارب ڈالر کا منصوبہ ہے 74فیصد پاکستان اور باقی روس کے پاس ہو گا،صوبہ بلوچستان کا کوٹہ 6فیصد بنتا ہے ، گیس سیکٹر میں 8.4فیصد کے حساب سے بلوچستان کے لوگ بھرتی کئے گئے ہیں ،ٹیکنیکل نوعیت کی آسامیاں ہوتی ہیں ،تعلیم کی بنیاد کو دیکھ کر اوگرا اور پی پی ایل بھرتی کرتے ہیں۔

پیر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹر ولیم کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عبدالقادر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤ س میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کی جانب سے 27مئی 2021کو منعقدہ سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملات برائے پٹر ولیم سیکٹر میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انجینئرز اور ڈپلومہ ہولڈرز کی بے روز گاری، پاکستان پٹر ولیم لمیٹڈ اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کے ڈیلی ویجز ورکرز کے گزشتہ 16سال سے مسائل کے علاوہ سینیٹر منظور احمد خان اور سردار محمد شفیق ترین کی طرف سے 3 جون 2021کو منعقدہ سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے بلوچستان میں کول مائنز کے معاہدوں کو منسوخ کرنے، عرفان کھوکھر کی ایل پی جی پر عائد کردہ مختلف ٹیکسز کو ختم کرنے کے حوالے سے عوامی عرضداشت، حسکول پٹر ولیم لمیٹڈ کمپنی کے حالیہ سکینڈل اور ملک میں تیل و گیس سیکٹر کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کے 27مئی 2021کو منعقدہ سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملات پر تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔ سیکرٹری پیٹرولیم ڈاکٹر ارشد محمود نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ صوبہ بلوچستان کا کوٹہ 6فیصد بنتا ہے اور گیس سیکٹر میں 8.4فیصد کے حساب سے بلوچستان کے لوگ بھرتی کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ ٹیکنیکل نوعیت کی آسامیاں ہوتی ہیں اور تعلیم کی بنیاد کو دیکھ کر اوگرا اور پی پی ایل بھرتی کرتے ہیں۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ سابقہ کمیٹی نی14 انجینئرزکی ریگولیشن کا مسئلہ اٹھایا تھا اٴْس کی تفصیلات فراہم کی جائیں کمیٹی اس حوالے سے سفارشات بھی دی تھیں۔ سینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ 14میں سے 13انجینئرز کو ریگولر کر دیا گیا ہے ایک ابھی نہیں ہو سکا جس پر سیکرٹری پٹرولیم نے یقین دہانی کرائی کہ اٴْس کو بھی جلد ریگولر کر دیا جائے گا۔

سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ایک معاہدہ کیا گیا تھا جو 2016میں ختم ہو گیا تھا نیا معاہدہ ہونے جا رہا ہے جب تک نیا معاہدہ نہیں ہو تا پرانے معاہدے کے تحت کام کرنا چاہئے ،بلوچستان میں پی پی ایل کے گیٹ پر 400کے قریب ورکرز ہڑتال پر ہیں متعلقہ اداروں کا کوئی بندہ اٴْن کے پاس تک نہیں گیا۔ کمپنیوں نے سکولوں کو اپ گریڈ، وظائف، میڈیکل سینٹر اور دیگر سہولیات دینی تھیں 2017سے آگے کام نہیں ہوا۔

لائن واکرز کی تنخواہیں 5ہزار تھیں کمیٹی میں معاملہ اٹھایا تو 12500کی گئی اب حکومت نے 17500مقرر کی ہے اٴْن کو بھی وہی ملنی چاہئے۔ سینیٹر محسن عزیز کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ملک میں گیس کی پیداوار 4500ایم ایم سی ایف ہے اس میں سے 12سو ایم ایم سی باہر سے آ رہی ہے اور 28سو سسٹم گیس ہے ہماری اپنی گیس کی پیداوار وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔ ایل این جی کی طرف جا رہے ہیں۔

صوبہ سندھ سے 22سو ایم ایم سی ایف، کے پی کے سے 4سو، بلوچستان سے 8سو اور پنجاب سے 115ایم ایم سی گیس نکلتی ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ گیس و آئل جس صوبے سے جتنی مقدار میں نکلتا ہے ملازمتیں بھی اٴْسی حساب سے ملنی چاہئے۔ قائمہ کمیٹی نے جلد سے جلد معاہدہ کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ 2016میں معاہدہ ختم ہوا تھا متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر نیا معاہدہ عمل میں لایا جائے تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر منظور احمد خان اور سردار محمد شفیق ترین کی طرف سے 3 جون 2021کو منعقدہ سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے بلوچستان میں کول مائنز کے معاہدوں کو منسوخ کرنے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کوئی لیز کینسل نہیں کی گئی معاہدوں کی تجدید کی جائے گی۔ سینیٹر سردار محمد شفیق ترین نے کہا کہ سالوں سال کے منصوبے کئے گئے ہیں پہلے بتایا گیا تھا کہ سال میں 5فیصد بڑھایا جائے گا مگر اس کو 20فیصد تک بڑھا یا گیا ہے۔

جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ایم ڈی سی صوبوں سے لیکر آگے سب لیز کر دیتے ہیں، کول کے بین الااقوامی سطح پر ریٹ میں اضافہ ہوا ہے رائلٹی متعلقہ صوبے کو ملتی ہے۔ سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ یہ معاملہ پی ایم ڈی سی کے بورڈ آف ڈایکٹر میں اٹھایا جائے گا اور معزز سینیٹرز اس معاملے کے حوالے سے اپنی سفارشات تحریری طور پر فراہم کر دیں۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ سابقہ کمیٹی نے مختلف کول مائنز کا دورہ کیا تھا اور وہاں مزدورں کی حالت اچھی نہیں تھی بنیادی سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئی تھیں کچھ کمپنیوں نے سہولیات فراہم کر رکھی تھیں۔ سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ ایک صوبائی محکمہ قائم ہے جو سیفٹی اقدامات کو چیک کرتا ہے قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں چاروں صوبوں کے چیف ا نسپکٹر مائنز کو طلب کر لیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا کہ انرجی کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے پاکستان میں 70فیصد انرجی پٹرولیم مصنوعات سے بنتی ہے ملک میں گیس کی قلت کا مسئلہ ہے مقامی پیداوار کم ہو رہی ہے اس کمی کو دور کرنے کیلئے موثر طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے۔ سینیٹر کہدہ بابر نے کہا کہ گوادر میں لوگ گیس و تیل سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہیں مگر لائسنس و دیگر چیزوں کیلئے خوار ہو رہے ہیں۔

عرفان کھوکھر کی ایل پی جی پر عائد کردہ مختلف ٹیکسز کو ختم کرنے کے حوالے سے عوامی عرضداشت کے معاملے کا تفصیل سے جائز ہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایل پی جی کے حوالے سے ڈپٹی پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں ایک گروپ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سفارشات کی روشنی میں ایک پالیسی مرتب کی گئی ہے جو اگلے چار ہفتوں میں منظور ہو جائے گی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گیس کی ایمپورٹ پر 5.5فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ہے نئی پالیسی میں اس سے استثنیٰ کی تجویز ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی پی ایل، اوگرا ریفانرز و دیگر ملک میں ایل پی جی بنا رہی ہیں مقامی اور ایمپورٹ کیلئے یکساں ٹیکس ہونا چاہیے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسا طریقہ کار اور پالیسی اختیار کرنی چاہئے جس سے ملک کی عوام کو فائدہ ہو نہ کہ ایمپورٹرز کو استثنیٰ دے کر مقامی کمپنیوں کو نقصان دیا جائے۔ چیئرمین اوگرا نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے مشاورت کر کے موثر حل نکالا جائے گا۔

سینیٹر فدا محمد نے گھریلو سلنڈرز کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اوگرا کی مرضی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ آئندہ اجلاس میں غیر ضروری اضافہ کرنے والوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر بریف کریں۔حسکول پیٹرولیم لمیٹڈ کمپنی کے حالیہ سکینڈل کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ حسکول کمپنی کی مینجمنٹ نی7.4ارب کا جعلی پر چیز آڈر بنایا اور سی ای او حسکول نے 8ارب کا آئل کا فراڈ کیا۔

تقریباً 75ارب کا اس کمپنی نے فراڈ کیا ہے متعلقہ اداروں نے اس کیا پیش رفت کی ہے آگاہ کیا جائے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ قائمہ کمیٹی ایوان بالائ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ساتھ مشترکہ اجلاس کر کے معاملے کا جائزہ لے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ بہتر یہی ہو گا کہ قائمہ کمیٹی اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، وزارت پٹرولیم، ایف آئی اے و دیگر متعلقہ کو طلب کر کے معاملے کا جائزہ لے۔

قائمہ کمیٹی نے ون ایجنڈا کمیٹی اجلاس میں متعلقہ اداروں کو طلب کر کے جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں تیل و گیس سیکٹر کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔سیکرٹری پٹرولیم نے قائمہ کمیٹی کو روس کے ساتھ پی ایس جی پی منصوبے کی تفصیلات سے تفصیلی آگاہ کیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاک روس پائپ لائن 1040کلومیٹر پر مشتمل ہو گی۔ 2.25سے 2.5ارب ڈالر کا منصوبہ ہے 74فیصد پاکستان اور باقی روس کے پاس ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ میں جی ٹو جی کا سب سے کامیاب منصوبہ ہے 2014میں اس منصوبے کے حوالے سے معاملات شروع ہوئے، کام شروع ہونے پر دوسال میں کام مکمل ہو سکتا ہے۔42سے 50ڈیا میٹر کی پائپ لائن ہو گی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 790ارب کی جی آئی ڈی سی ہے جس میں سے اپریل 2021تک 321ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع ہو چکے ہیں 473ارب روپے مختلف پارٹیوں سے وصول کرنے ہیں۔

356ارب روپے کی وصولی کے حوالے سے ہائی کورٹ کا حکم امتنائی بھی ہے۔ سی این جی سیکٹر کو 50ارب کی جی آئی ڈی سی معاف بھی کی گئی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے باقی ایجنڈا آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز فدا محمد، محسن عزیز، انجینئر رخسانہ زبیری، سعدیہ عباسی، آفنان اللہ خان،کہدہ بابر، پرنس احمد عمر احمد زئی، عون عباس، سرفراز احمد بگٹی اور سردار محمد شفیق ترین کے علاوہ سیکرٹری پیٹرولیم، ایم ڈی سوئی سدرن گیس، ایم ڈی سوئی نادران گیس، چیئرمین اوگرا اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی۔