Live Updates

کشمیر میں انتخابات، نون لیگ کا مستقبل زیر بحث

DW ڈی ڈبلیو پیر 26 جولائی 2021 20:00

کشمیر میں انتخابات، نون لیگ کا مستقبل زیر بحث

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2021ء) کچھ ناقدین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جی ایچ کیو میں بڑھتی ہوئی قربت کا بھی غور سے جائزہ لے رہے ہیں اور آنے والے وقتوں میں ن لیگ کی سیاسی مشکلات میں اضافے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔

فتح کے پیچھے عوامل

معروف سیاسی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی فتح کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد آزاد کشمیر کے بہت سے روایتی سیاستدانوں نے پی ٹی آئی کی طرف رُخ کر لیا تھا اور پی ٹی آئی نے ان سیاستدانوں کو اپنی پارٹی میں جگہ دی۔ اس کے علاوہ یہ روایت بھی رہی ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت اسلام آباد میں حکومت بناتی ہے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی اسی کی حکومت ہوتی ہے کیونکہ وہاں کے عوام سوچتے ہیں کہ سارے ترقیاتی منصوبے موجودہ حکومت کے پاس ہوتے ہیں جب کہ افسر شاہی کے تمام افراد بھی پاکستان سے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘

سہیل وڑائچ کے مطابق کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی جماعت کو کامیاب کرایا جائے، جس کی اسلام آباد میں حکومت ہو تاکہ فنڈز کے حصول میں دشواری نہ ہو۔‘‘

مسلم لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نون لیگ کی شکست نواز شریف کے بیانیے کی شکست ہے اور یہ اس بات کی بھی عکاس ہے کہ ملک کی طاقتور فوج میاں صاحب سے خوش نہیں ہے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ انتخابات سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کی راہیں اب مکمل طور پر جدا ہوگئی ہیں، ''مجھے لگتا ہے کہ نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اب کسی طرح کی مصالحت نہیں ہو سکتی اور ان انتخابات کے نتائج سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ دونوں کے درمیان اب مصالحت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کہ کہنا ہے کہ نون لیگ کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان نتائج پر شہباز شریف بہت خوش ہوں گے کیونکہ ان کی یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ طاقتور اداروں سے ٹکر لے کر نون لیگ سیاسی جگہ نہیں بنا سکتی۔ یہ شکست اس بات کا اشارہ ہے کہ نون لیگ کو پاکستان میں ہونے والے اگلے عام انتخابات میں بھی کامیابی نہیں ملے گی۔‘‘

نواز شریف پیچھے نہیں ہٹیں گے

مسلم لیگ نون کی رہنما عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ان انتخابات سے نون لیگ کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پارٹی ممبران نواز شریف کے بیانیے سے پیچھے ہٹ جائیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اسٹیبلشمنٹ یہ پیغام دینا چاہ رہی ہیں کہ ہم نواز شریف کے بیانیہ سے ہٹ جائیں اور مریم نواز سیاسی منظر نامے سے آؤٹ ہوجائیں لیکن پارٹی بیانیے سے کسی طور پر دست بردار نہیں ہو گی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شکست نواز شریف کے بیانیے کی شکست ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ نواز شریف کے بیانیے کو کل بھی عوام میں پذیرائی حاصل تھی اور آج بھی ہے۔

‘‘

بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ان انتخابات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کی دوسری پسندیدہ جماعت ہے، ''آپ دیکھ لیں کہ بلاول بھٹو نے کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ہے اور ان نتائج سے بھی یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اگر وہ ان کی لائن ٹو کرتی رہے گی تو اسے اسی طرح نوازا جاتا رہے گا۔‘‘

کوئی غیر جانبداری نہیں تھی

عظمی بخاری کا دعوی ہے کہ اسٹیبلشمٹ غیر جانبدار نہیں تھی، ''پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے خوب دھاندلی کی اور کشمیر میں اسٹیبلشمنٹ نے ان کا ساتھ دیا۔

ہمیں بہت کم ووٹوں سے ہرا گیا ہے۔‘‘

کوٹلی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توقیر گیلانی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو مین دعویٰ کیا، ''انتخابات سے پہلے ایک فوجی افسر بے نقاب ہوا اور دھاندلی کے علاوہ پیسے کا بھی بے دریغ استعمال ہوا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''اسٹیبلشمنٹ نے کھل کے پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت کی ہے اور ایسے بھی امیدوار جیتے ہیں جن کا کوئی انتخابی حلقہ نہیں ہے۔

‘‘

تاہم سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے میں دھاندلی نہیں ہوئی جب کہ احسن رضا بھی دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

مہاجرین کی نشستیں ختم کی جائیں

ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا تھا کہ اگر مستقبل میں انتخابات شفاف بنانا ہے تو مہاجرین کی نشستیں ختم کی جائیں، ''آزاد کشمیر کے انتخابات میں مہاجرین کی نشستوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے اور اب یہ نشستیں کسی بھی الیکشن کے لیے فیصلہ کن بن گئی ہے۔

پی ٹی آئی نے بھی مہاجرین نشستوں پر بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ان نشستوں پر ووٹوں کی تعداد بھی بہت کم ہے لہٰذا نشستوں کا کوئی جواز نہیں ہے انہیں ختم کیا جائے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے پی ٹی آئی کے متعدد رہنماوں سے موقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات