سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کامرس سیکرٹری کامرس کی عد م موجودگی پر برہم

سارے اراکین اتنی دور سے آتے ہیں تو سیکرٹری کیوں نہیں آسکتی ،کئی اراکین کا احتجاجاً واک آئوٹ مشیر تجارت عبدالرزاق داود نے سیکٹری تجارت کی عدم موجودگی پر اراکین کمیٹی سے معافی مانگ لی کرونا کی وجہ سے چین کو چاول کی برآمداد بند ہوگئی ہیں،جنوری 2022 میں پاکستان موبائل کی برآمدات شروع کر دے گا،چینی کمپنی موبائل برآمداد شروع کریں گے، مشیر بجارت

منگل 27 جولائی 2021 23:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جولائی2021ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کامرس نے سیکرٹری کامرس کی عد م موجودگی پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ سارے اراکین اتنی دور سے آتے ہیں تو سیکرٹری کیوں نہیں آسکتی ۔ منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کامرس کا چئیرمین کمیٹی سینیٹر زیشان خانزادہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا جسم یں سیکرٹری کامرس کی عدم موجودگی پر اراکین کمیٹی نے اظہار برہمی کیا اور کہاکہ ہم سارے اتنی دور سے آتے ہیں تو سیکٹری کیوں نہیں آسکتے۔

ایڈیشنل سیکٹری کامرس نے کہاکہ ایکسپو 2020 کی تیاری کے باعث سیکرٹری کامرس کراچی میں مصروف ہیں۔سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ اگر آئندہ سیکرٹری کامرس موجود نا ہوئے تو ہم کمیٹی میں نہیں بیٹھیں گے۔ سینیٹر فدا محمد نے کہاکہ سیکرٹری کامرس کے رویے پر چیئرمین سینیٹ کو لکھیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر دنیش کمار، سنیٹر احمد خان، سینیٹر فدا محمد کا سیکرٹری کامرس کی عدم موجودگی پر کمیٹی سے واک آئوٹ کیا ۔

چیئرمین کمیٹی کی ہدایت پر سینیٹر محمد قاسم ناراض اراکین کو واپس کمیٹی لے آئے۔ چیئر مین نے کہاکہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو میں بھی کمیٹی سے واک آئوٹ کروں گا اور آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گا۔ سینیٹر احمد خان نے کہاکہ میں بلوچستان سے کمیٹی کیلئے آیا ہوں اور سیکرٹری کمیٹی غائب ہیں، ایسا نہیں چل سکتا۔ سینیٹر فدا محمد او سینیٹر احمد خان ن یکہاکہ اگرسیکرٹری کمیٹی کراچی میں مصروف ہیں تو آئندہ کمیٹی کراچی میں رکھ لیا کریں، کامرس منسٹری کی طرف سے ورکنگ پیپر مہیا نا کرنے پر اراکین کمیٹی برہم ہوگئے ۔

سینیٹر فدامحمد خان نے کہاکہ ورکنگ پیپر کمیٹی اجلاس سے کچھ دن قبل مہیا کیا کریں، اجلاس سے چند لمحہ پہلے ورکنگ پیپرز مہیا کرنا آپکی غیر سنجیدگی کو ثابت کرتی ہیسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں وزرات تجارت حکام نے اسٹریٹجک تجارتی پالیسی فریم ورک پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔ڈی جی ٹریڈ پالیسی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دو تجارتی پالیسی میں تجارتی ٹارگٹ حقیقت پسندانہ نہ تھے،برآمدی ٹارگٹ بہت زیادہ رکھے گئے تھے جن کا حصول ممکن نہ تھا۔

گزشتہ تجارتی پالیسیوں میں ،چین ،ای یو سمیت تین مارکیٹ پر توجہ تھی۔ سال2019_2020 کے مقابلے میں گزشتہ سال ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا۔کمیٹی اراکین نے سوال کیا کہ برآمدات بڑھی ہیں تو تفصیلات بتائیں ،کہاں سے اڈرز ملے تھے جس پر ڈی جی ٹریڈ پالیسی نے بتایا کہ اڈرز ملنے کی تفصیلات ہمارے پاس نہیں ،ہمیں نہیں بتایا جاتا۔سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ یہ ڈاکومنٹڈڈ اکنامی ہے ،معلوم تو ہو کہاں سے اڈرز ملے جن سے برآمدات زیادہ ہوئیں جس پر ایڈیشنل سیکٹری تجارت نے بتایا کہ حکومت نے صعنتوں کے لیے توانائی کے ریٹ کنٹرول کئے، خام مال میں کمی کی اور اس پر سیلز ٹیکس کو کم کیا ،صنعت کو مراعات دی گئیں۔

ہم نے نئے تجارتی پارٹنرز بنائے۔انہوں نے بتایا کہ آئی ٹی سیکٹر میں بھی ہماری برآمدات بڑھی ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ ایک سال میں آئی ٹی کی برآمدات ڈبل ہو جائیگی-انہوں نے بتایا کہ روایتی سیکٹر کے علاوہ دیگر نئے سیکٹرز میں برآمدات پر توجہ مرکوز کرنے سے بھی ہمارے برآمدات بڑھی ہیں۔وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داود نے سیکٹری تجارت کی عدم موجودگی پر اراکین کمیٹی سے معافی مانگی۔

مشیر برائے تجارت نے کمیٹی کو بتایا کہ پچھلے ڈھائی سالوں میں ہماری توجہ برآمدات کو بڑھانے پر رہی ہے۔ کووڈ کے باوجود کیش فلو کا مسئلہ فرمز کو نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس کے مسائل موجود ہیں۔ہماری توجہ برآمدات پر ہیں اسلئے 25 بلین تک ہماری برآت پہنچی ہیں،بعض اوقات ہم اس بات میں کنفیوژہوتے ہیں کہ سبسڈی ہے یا نہیں ہم نے صنعت کو توانائی میں کوئی سبسڈی نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ صنعت کو بجلی مد مقابل ممالک صعنتوں کو دئیے جانے والے نرخ پر فراہم کی جائے،نئی ڈی سی ٹی ایل پالیسی روائتی شعبوں کے علاوہ نئے شعبوں کو بھی دینے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات بہت محدود شعبوں پر مشتمل ہے ہمیں نئے سیکٹرز کی طرف جانا ہوگا۔ ہم انجینئرنگ گڈز ،فارماسوٹیکل ،اٹو پارٹز، فروٹ اینڈ ویجٹیبل ،گوشت ،پولٹری سمیت 11 نئے شعبے لارہے ہیں جس سے ہماری برآمدات مزید بہتر ہوں گی۔

مشیر تجارت نے کمیٹی کو بتایا کہ جنوری 2022 میں پاکستان موبائل کی برآمدات شروع کر دے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش تھی کہ سیم سنگ پاکستان میں آئے ،ہم نے سیم سنگ موبائل کمپنی سے دو بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے معزرت کرلی۔چینی کمپنی موبائل برآمداد شروع کریں گے،اب چینی کمپنی آچکی اور کراچی میں فیکٹری لگا رہے ہیں۔سینیٹر محمد قاسم نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشیر تجارت کو مخاطب ہوکر کہا کہ کچھ غیر ملکی کمپنیاں ہمارے علاقوں میں سی فوڈ کیلئے آتے ہیں جس سے ہمارے ماہی گیروں کا برا حال ہے۔

سینیٹر فدا محمد نے سوال اٹھایا کہ خیبرپختونخواہ میں ماربل اور معدنیات کی انڈسٹریز ہیں لیکن اس کا کوئی تزکرہ نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد اگر ضم شدہ علاقوں کے لوگوں کو قرض نہیں دیں گے تو وہ لوگ انڈسٹری کیسے لگائیں گے۔چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان اور کے پی کے میں لون کی فنڈنگ کا تناسب بہت کم ہے۔ کے پی کے میں لون فنڈنگ کی شرح 1 فیصد جبکہ بلوچستان میں یہ شرح 0.5 فیصد سے بھی کم ہے جس پر مشیر تجارت نے کمیٹی کو باور کرایا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ ماربل اور معدنیات پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔

مشیر تجارت نے بتایا کہ کرونا کی وجہ سے چین کو چاول کی برآمداد بند ہوگئی ہیں۔ای ڈی جی کامرس نے بتایا کہ پاکستانی چاول کی بوریوں کے پیندے میں کورونا وائرس پایا گیا جس کی وجہ سے چین نے چاول کی برآمدات روک لیں۔ مچھلی کی چھ کمپینوں کی پیکنگ میں بھی کورونا وائرس پایا گیا جس کی وجہ سے چین نے چھ کمپنیوں سے کرونا وائرس کی موجودگی کے باعث ان کی درآمد ات روک لیں،اب چین چاول کا معائنہ کرنے خود آتے ہیں۔

ٹیکسٹائل پالیسی 2020۔2025 اور 2011 سے 2021 تک درآمداد اور برآمداد پر بریفنگ اگلی میٹنگ تک موخر کردی گئی۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر مرزا محمدآفریدی، سینیٹر فدا محمد، سینیٹڑ سلیم مانڈوی والا،سینیٹر نزہت صادق، سینیٹر احمدخان،سینیٹر دنیش کمار، سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان اور سینیٹڑ محمدقاسم نے کمیٹی میں شرکت کی۔وزارت تجارت سے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود، ایڈیشنل سیکرٹری تجارت، ای ڈی جی کامرس اور وزارت کے دیگر حکام بھی کمیٹی میں شریک ہوئے۔