طالبان کے افغانستان میں بھارت کا کردار کیا؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 28 جولائی 2021 16:00

طالبان کے افغانستان میں بھارت کا کردار کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2021ء) افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا آخری مراحل میں ہے۔ اسی دوران طالبان نے اپنی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بگڑتی صورتحال میں علاقائی طاقتیں اس جنگ زدہ ملک میں اپنی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔

افغان حکومت کو امداد فراہم کرنے والے علاقائی ممالک میں بھارت ایک اہم فریق ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے نئی دہلی حکومت نے بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔

افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کا حجم تین بلین ڈالرز سے زائد بنتا ہے، جس میں ڈیموں کی تعمیر کے علاوہ شاہراہوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کا قیام بھی ہے۔ اس کے علاوہ کابل میں پارلیمان کی نئی عمارت کی تعمیر میں بھی بھارت کی سرمایہ کاری شامل ہے۔

(جاری ہے)

تاہم افغانستان میں بھارتی منصوبہ جات امریکی سکیورٹی کی مدد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے تھی۔

اب ستمبر میں جب تمام امریکی فورسز افغانستان سے لوٹ جائیں گی تو اندیشہ ہے کہ یہ شورش زدہ ملک ایک مرتبہ پھر طالبان کے رحم و کرم پر جا سکتا ہے۔ طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں بھارت کے لیے مسائل دوچند ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہو گا۔

بھارت کے مفادات کو خطرہ

بھارتی پالیسی ساز افغانستان کی صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

نئی دہلی کو یقین ہے کہ اس کا روایتی حریف ملک پاکستان افغانستان میں مسلم جنگجوؤں کو تعاون فراہم کرے گا۔ یہ جنگجو غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا سے قبل ہی ملک کے ایک بڑے حصے پر قابض ہونے کے دعوے کر رہے ہیں، یوں اس وسطی ایشیائی ملک میں بھارت کے اسٹریٹیجک مفادات کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز پر ہی بھارتی حکومت نے قندھار میں سیکورٹی کے پیش نظر وہاں قائم اپنے قونصل خانے سے پچاس سفارت کاروں اور اسٹاف کے دیگر عملے کو نکال لیا تھا۔

روزنامہ انڈین ایکسپریس کے مطابق اگر شمالی صوبے بلخ میں بھی طالبان کی پرتشدد کارروائیاں جاری رہیں تو بھارت کو اس صوبے کے دارالحکومت مزار شریف میں قائم اپنے سفارتخانے سے اپنا عملہ نکالنا پڑ سکتا ہے۔

گزشتہ مرتبہ جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا تو سن انیس سو ننانوے میں مبینہ پاکستان نواز جنگجوؤں نے ایک بھارتی مسافر بردار طیارہ ہائی جیک کر کے قندھار اتار لیا تھا۔

ورجینیا میں کالج آف ولیم اینڈ میری سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر رانی مؤلن کے مطابق ماضی میں بھارت اپنی اس پالیسی پر سختی سے عمل پیرا رہا ہے کہ اس نے طالبان سے بات چیت نہیں کرنا ہے۔

طالبان سے مذاکراتی عمل

نئی دہلی میں قائم سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں سینیئر فیلو مؤلن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ 'دہشت گردوں سے مذاکرات نہ کرنا اور صرف جمہوری طور پر منتخب حکومت کو بھارتی تعاون فراہم کرنا جیسی پالیسی نے اس وقت میں نئی دہلی کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے‘۔

مؤلن نے مزید کہا کہ دوسری طرف امریکی اتحادی گزشتہ کئی برسوں سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس سال کے اواخر تک طالبان ملک کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ کی کچھ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے طالبان کے کچھ دھڑوں کے ساتھ رابطوں کی کوشش کی ہے اور وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔

یہ بھارت کی افغان پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی قرار دی جا رہی ہے۔

متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے ساتھ بھارتی حکومت کے رابطے ایک درست فیصلہ ہے۔ واشنگٹن میں قائم سٹمسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا پروگرام سے منسلک ایلزبتھ تھریلکڈ کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کی مدد کے ساتھ طالبان سے بھی مذکرات کرنا ایک عقلمندانہ اقدام ہو گا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ایلزبتھ نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے اور وہ اب پاکستان سے ہٹ کر دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بھی روابط پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بات نئی دہلی کے لیے ایک سنہری موقع ہو سکتا ہے۔

مؤلن کے خیال میں اب صورتحال ماضی والی نہیں، جہاں پاکستان کا طالبان پر اثرورسوخ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات میں اسلام آباد کے کردار کے علاوہ حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان اب پاکستان پر انحصار نہیں کر رہے۔

ایک نئی خانہ جنگی

حالیہ حملوں کے تناظر میں افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان امن نہیں چاہتے۔

انہوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ طالبان کے قبضے میں جانے والے تمام علاقوں کو بازیاب کرا لیں گے۔

اس صورتحال میں کئی مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔

نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے وابستہ بھارت کرناڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغانستان ایک بڑی خانہ جنگی کے دہانے پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی ہزارہ شیعہ ملیشیاؤں کو ایران کی حمایت حاصل ہے، جو اب افغان خفیہ ادارے کے ساتھ مل کر فعال ہو رہی ہے اور ان گروہوں کے پاس بھاری اسلحہ ہے۔

کرناڈ نے تجزیہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ دوسری طرف شمالی اتحاد کا احیا بھی کیا جا رہا ہے۔ طالبان کے دور میں سن انیس سو چھیانوے میں شمالی اتحاد ایک مزاحمتی مسلح گروپ تھا، جس نے ان عسکریت پسندوں کو کڑا وقت دیا تھا۔

جنرل بسم اللہ خان محمدی کو نیا وزیر دفاع بنانا بھی اس بات کا عندیہ ہے کہ شمالی اتحاد کی واپسی ہونے والی ہے۔ ماضی میں وہی شمالی اتحاد کے فوجی کمانڈر تھے۔

افغانستان میں مختلف نسلی گروپوں کے فعال ہونے اور نئی عسکری اتحادوں کے وجود میں آنے کے بعد نہ صرف خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ گیا ہے بلکہ ساتھ ہی افغانستان میں پاکستان کی مداخلت بھی بے اثر ہونے کی توقع ہے۔

'طالبان آسانی اقتدار میں نہیں آئیں گے‘

بھارت کرناڈ کے مطابق اس وقت بھارت کی پوزیشن بہتر ہے کیونکہ صورتحال ویسی نہیں جب آخری مرتبہ طالبان طاقت میں آئے تھے۔ انہوں نے کہا، ''بھارتی حکومت طالبان کے ساتھ رابطے کر چکی ہے اور موجودہ حالات میں یہ جنگجو افغان تنازعے کا صرف ایک دھڑا ہی ہیں۔‘‘

کرناڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مرتبہ طالبان آسانی کے ساتھ ملک پر قبضہ نہیں کر سکیں گے، ''مستقبل قریب میں ان کا اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہے‘‘۔

افغانستان کے لیے سابق بھارتی مندوب گوتم مکھوپاڈیا کے بقول البتہ اکتوبر تک کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''جب تک افغان حکومت قائم رہے گی، تب تک بھارت کابل حکومت اور افغان عوام کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے گی۔‘‘

گوتم نے ایسے اندازوں کو رد کر دیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت ممکن ہے کہ اس بار طالبان مخلاف دیگر تمام گروہ منظم ہو کر مزاحمت دکھائیں۔

آدیتیہ شرما (ع ب/ ع ح)