9سال گزرنے کے باجود تحصیل رائے ونڈفعال نہ ہوسکی ، میونسپل کمیٹی کا درجہ دینے کی بجائے یونین کونسل تک محدود کر دیا گیا

قیام پاکستان سے قبل ٹائون کمیٹی کا درجہ پانے والی ٹائون کمیٹی رائے ونڈ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے باعث میونسپل کمیٹی نہ بن سکی

اتوار 1 اگست 2021 17:40

رائے ونڈ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 اگست2021ء) 9سال گزرنے کے باجود تحصیل رائے ونڈفعال نہ ہوسکی ،تحصیل رائے ونڈ کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دینے کی بجائے یونین کونسل تک محدود کر دیا گیا شہریوں کے مسائل میں اضافہ ،پسماندہ علاقوں کی رہائشی ہزاروں افراد کا خاموش احتجاج مسترد کردیا گیا ۔قیام پاکستان سے قبل ٹائون کمیٹی کا درجہ پانے والی ٹائون کمیٹی رائے ونڈ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے باعث میونسپل کمیٹی نہ بن سکی ۔

نصف صدی گزرنے کے باوجود سوتیلی ماں جیسا سلوک ہونے پر شہریوں کی مشکلات میں اضافہ۔عوامی سروے میں مطالبہ زور پکڑنے لگا۔تفصیلات کے مطابق پنجاب کی سب سے امیر ترین ٹائون کمیٹی کے حدود میں واقع گلیوں میںگندگی اور غلاظت کی بھرمار ،پینے کا صاف پانی میسر نہیں ،سیوریج کی بندش سمیت دیگر مسائل سے لوگ جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

(جاری ہے)

پراپرٹی ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے سالانہ وصول کرنیوالا اقبال ٹائون سی او یونٹ پر ایک پائی بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ۔سی او یونٹ کی حدودبڑھا کر اہل شہر کیساتھ سنگین زیادتی کی گئی ہے،ڈی سی لاہورسمیت ٹی ایم او ز نے رائے ونڈ شہر کا دورہ کرنے کی زحمت گوار ا نہیں کی،رائے ونڈ کو اقبال ٹائون سے الگ کرکے ’’میونسپل کمیٹی کا درجہ دینا وقت کی ضرورت ہے ۔

مشرف دور میں ٹائون کمیٹیاں ختم کرکے نئے ٹائون بنا کر جو نیا بلدیاتی نظام متعارف کرواگیا تھا اس کے تحت ٹائون کمیٹی کو سی او یونٹ کا درجہ دیدیا گیا نئے بلدیاتی نظام کیوجہ سے ٹائون کمیٹیوں کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا پنجاب کی سب سے زیادہ آمدن دینے والی ٹائون کمیٹی رائے ونڈ کو نشتر ٹائون لاہور کا حصہ بنا دیا گیاتھا،اربوں روپے کمرشل اراضی کی مالک ٹائون کمیٹی رائے ونڈ کے وسائل پر قبضہ ہونے سے رائے ونڈ کی 5لاکھ کے قریب آبادی بے یارومددگار ہو کر رہ گئی،اور مقامی لوگوں کا معیار زندگی متاثر ہو کر رہ گیا ، معمولی معمولی کام کیلئے لاہور کا سفر کرنا پڑا رشوت ستانی اور فضول اخراجات کا نیا باب شروع ہوگیاٹائون کی ملکیتی 156دکانوں کے لیز ہولڈرز کو کرایہ دار بنا کر مختلف سیاسی شخصیات نے انہیں بلیک میل کیا اور اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کیلئے ’’جی حضوری‘‘پر مجبور کیا سابقہ ٹائون کمیٹی کی حدود صرف 18وارڈ پر مشتمل تھی جبکہ ٹائون کمیٹی کا سالانہ بجٹ دو کروڑ کے لگ بھگ تھا پراپرٹی ٹیکس کے نفاذ سے 85فی صد حصہ ٹائون وصول کرنے لگا 156دکانوں کے کرایہ جات کی وصولی بھی ٹائون نے شروع کردی جبکہ اسکے برعکس رائے ونڈ کی عوام کو سہولیات کی فراہمی کی بجائے انکے وسائل پر قبضہ کرلیا گیا ،واٹر سپلائی ٹینکی جو کہ شہر میں گردوغبار سے بچائو کیلئے کام کرتی تھی کو زبردستی لے لیا گیا جبکہ ٹائون نے متعدد ٹریکٹر ٹرالیوں کو بھی اپنی حراست میںلے لیا ،نئے بلدیاتی نظام کے تحت ٹائون کمیٹی رائے ونڈ کو سی او یونٹ کا درجہ ملنے سے مقامی دفاتر میں الو بولنے لگے لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے کبھی نشتر ٹائون لاہور اور کبھی اقبال ٹائون لاہور کے چکر لگانے پڑرہے ہیں ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بعض سیاستدانوں نے اپنی سیاست کو چمک دمک دینے کیلئے سی او یونٹ کی حدود میں توسیع کرکے سی اویونٹ کو کنگال کردیا جناح آبادی ،بستی امین پورہ ،محلہ اسلام آباد ،کوٹ نہال خاں ،حویلی چھجوانوالی ودیگر علاقوں کو سی اویونٹ میں شامل کردیا گیا اوریہاں نئے ٹیوب ویل نصب کرکے اسکے بلوں کا بوجھ بھی سی او یونٹ پر ڈال دیا گیا قبل ازیں 18وارڈز پر مشتمل ٹائون کمیٹی اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل یونین کونسل کے تمام مسائل کا ذمہ دار سی او یونٹ کو بنا دینے اور عملہ کی کمی کے باعث سی او یونٹ رائے ونڈ اپنے انتظامی امور کی آخری سانسیں لے رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پرانے بلدیاتی نظام کی بحالی کے بعد اہل شہر کے مطالبے کو مانتے ہوئے ٹائون کمیٹی کو میونسپل کمیٹی رائے ونڈ کا درجہ دیکر اسکے وسائل کو بڑھا یا جائے اور مقامی لوگوں کو اپنے مسائل کا حل اپنے شہر میں مل سکے ۔