پاکستانی جیلوں میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک

DW ڈی ڈبلیو پیر 2 اگست 2021 20:20

پاکستانی جیلوں میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2021ء) پاکستان میں کچھ دنوں سے ایک خاتون قیدی کی ویڈیو مختلف واٹس اپ گروپوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چل رہی ہے، جس میں مذکورہ خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال جاری ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ خواتین قیدیوں کو اعلیٰ افسران کی جنسی ہوس مٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

خاتون نے ایک سینئر پولیس افسر کا نام لے کر بتایا کہ خواتین قیدیوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ خاتون قیدی نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اس صورت حال کا نوٹس لیں۔

بچوں کی جنسی تشدد سے حفاظت، یہ اقدامات ضرور کریں!

چینی کیمپوں میں مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، امریکا فکرمند

دنیا بھر میں تقریباﹰ تین کروڑ خواتین غلامی پر مجبور

پولیس نے رد عمل میں کہا ہے کہ یہ ویڈیو ایک سال پرانی ہے اور یہ کہ اس ویڈیو کو بنانے اور جاری کرنے والوں کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔

(جاری ہے)

آئی جی جیل خانہ جات پنجاب شاہد سلیم نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اسے پولیس کو بدنام کرنے کے لیے اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی ہم نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم کو اطلاع دی تھی اور ان سے کہا تھا کہ یہ پتا چلایا جائے کہ کس نے اس کو اپ لوڈ کیا۔ لیکن کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ ابھی پھر ہم نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ پتہ چلائیں کہ اس ویڈیوکوکس نے اپ لوڈ کیا ہے۔

‘‘

شاہد سلیم کے بقول اس ویڈیو میں کیے جانے والے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ '' جس جیل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، وہاں خواتین کے لیے سیکشن ہیں ہی نہیں۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کرائم رپورٹر، جن کی اس طرح کے معاملات پر گہری نظر ہے، شاہد سلیم کے اس دعوے سے اتفاق کرتے ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''پاکستان میں میڈیا بہت متحرک ہے۔

یہ کسی بھی طور پر ممکن نہیں کہ اس طرح رات کی تاریخی میں خواتین قیدیوں کو نکال کے کہیں بھی لے جایا جائے اور جنسی استحصال کا شکار بنایا جائے۔‘‘

اس رپورٹر کا مزید کہنا تھا کہ جیل میں خواتین سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور ہراساں بھی کیا جاتا ہے لیکن جنسی استحصال کا دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔

فیصل آباد جیل میں ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے منصوبے پر کام کرنے والی امینہ زمان کا کہنا ہے کہ جیل میں خواتین کے خلاف مار پیٹ ہوتی تھی لیکن جنسی استحصال کا کوئی واقعہ ان کے مشاہدے میں نہیں آیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''فیصل آباد جیل کی حد تک میں کہہ سکتی ہو کہ یہاں پر خواتین وارڈز میں مردوں کا بھی داخلہ اتنا عام نہیں تھا، تو مجھے نہیں لگتا کہ اس خاتون قیدی کا جو دعویٰ ہے اس میں کوئی صداقت ہے۔‘‘

تاہم جیل میں وقت گزارنے والی خواتین اور مرد قیدی اس ویڈیو میں کیے گئے دعووں سے اتفاق کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسلام آباد کی صدر شہزادہ کوثر گیلانی جو اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران کئی مرتبہ جیل گئیں، اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔

کوثر گیلانی پہلی مرتبہ اپنی والدہ کے ساتھ جیل مارشل لا کے دور میں گئی تھیں اور اس کے بعد انہیں متعدد بار سیاسی وجوہات کی بنیاد پر جیل جانا پڑا۔ کوثر گیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''تقریباً 21 سال پہلے جب میں اڈیالہ جیل میں تھی، تو وہاں دو سو سے زائد خواتین ایسی تھیں، جو منشیات اور دوسرے مقدمات میں سزائے کاٹ رہی تھیں۔ ان میں سے کئی خواتین خصوصاً خوبصورت خواتین کو بڑے افسران، با اثر قیدی اور باہر کے دوسرے طاقت ور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

ان میں سے زیادہ تر خواتین کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔‘‘

ان کے بقول جن خواتین کو اس طرح استعمال کیا جاتا تھا، انہیں بعد ازاں جیل میں رعایات بھی دی جاتی تھیں۔''ایک خاتون قیدی نے تو یہاں تک مجھے بتایا کہ اس کو اس کے بھائی اور بھابھی سے ملاقات کے لیے باہر لے جایا جاتا تھا۔‘‘

کوثر گیلانی کا دعوی ہے کہ خواتین قیدیوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور جنسی استحصال پر مجبور کیا جاتا ہے۔

''خواتین پولیس اہلکار بھی اس میں ملوث ہوتی ہیں اور ان کی نگرانی میں ہی خواتین قیدیوں کو عیاش لوگوں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ جنسی استحصال کا شکار ہونے والی خواتین اپنی زبان نہیں کھولتیں کیوں کہ شکایت کرنے کی صورت میں ان کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی کی جاتی تھی۔‘‘

فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی، جنہوں نے ملک کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کا دعوی غیر حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''جیل کے عملے کا رویہ خواتین سیاسی کارکنان سے تھوڑا سا مختلف ہوتا تھا کیونکہ انہیں ڈر ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے سیاسی جماعتیں ہیں لیکن جو غریب اور بے سہارا خواتین چھوٹے موٹے جرائم میں جیل کے اندر ہوتی تھیں، ان کا اس دور میں بھی جنسی استحصال کیا جاتا تھا۔ سپاہی سے لے کر افسران تک سب اس گھناؤنے گیم میں شریک جرم تھے۔

‘‘

کوثر گیلانی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر سی سی ٹی وی کیمرے خواتین وارڈز میں لگائے جائیں اور ان کی نگرانی پر ایماندار افسران کو متعین کیا جائے۔ ''اس کے علاوہ عدلیہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر ملکی مبصرین کی طرف سے جیل کا غیر اعلانیہ دورہ ہونا چاہیے تاکہ پولیس پر احتساب کا ایک خوف ہو۔

‘‘

کوثر گیلانی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی پولیس والوں کا رویہ خواتین کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز ہوتا تھا۔ ''پولیس والے ملاقاتیوں سے رشوت لیتے تھے۔ جو کھانے کا سامان آتا تھا اس میں جو اچھا کھانا ہوتا تھا وہ رکھ لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ کپڑے اور چپلیں بھی رکھ لیا کرتے تھے۔ اور اگر اس پر کوئی احتجاج کرتا، تو اس کو خوب مارا پیٹا جاتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے کسی مسئلے پر احتجاج کیا تو مجھے اڈیالہ جیل سے اٹک جیل میں لا کر بند کر دیا گیا۔‘‘