جیکب آباد میں ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض 10سالہ بچی کی شادی کرانے کی کوشش

پولیس نے بچی کے باپ اور دلہا کو گرفتار کرلیا، بچی کو خریدنے کی کوشش میں دلہے کے اہلِ خانہ کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کر دیا

Danish Ahmad Ansari دانش احمد انصاری منگل 3 اگست 2021 20:01

جیکب آباد میں ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض 10سالہ بچی کی شادی کرانے کی کوشش
جیک آباد (اُردو پوائنٹ، اخبار تازہ ترین، 3اگست 2021) جیکب آباد میں ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض 10سالہ بچی کی شادی کرانے کی کوشش، پولیس نے بچی کے باپ اور دلہا کو گرفتار کرلیا، بچی کو خریدنے کی کوشش میں دلہے کے اہلِ خانہ کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی گئی۔تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس نے ضلع جیکب آباد میں کارروائی کر کے دس سالہ لڑکی کی شادی کروانے والے باپ اور دلہا کو گرفتار کرلیا۔

سندھ کے ضلع جیکب آباد میں پولیس نے کارروائی کر کے دس سالہ بچی کی شادی کی کوشش کو ناکام بنا کر باپ کو گرفتار کرلیا۔عدالتی حکم پر لولیس نے بچی کے باپ کے علاوہ دلہا کو بھی گرفتار کیا۔ تفتیشی افسر کے مطابق بچی کی دادی نے ڈیڑھ لاکھ کےعوض شادی طے کی تھی، دلہا اور اہل خانہ نے رقم ادا کر کے دس سالہ بچی کو خریدنے کی کوشش کی۔

(جاری ہے)

ماموں کی درخواست پرعدالت نے پولیس کوکارروائی کاحکم دیا، پولیس کو بچی کو ماموں کےحوالےکردیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل رواں سال پولیس نے کم عمری کی شادی کرنے پر ایاز نامی دلہا کو گرفتار کیا، جس کا حراست میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔پولیس نے 28 جنوری کو ضلع خیر پور کے پیرجوگوٹھ کے علاقے کوٹ ڈینل محلے میں کم عمر بچوں کی شادی کرائے جانے پر کارروائی کی ، اس کارروائی میں دولہے اور دلہن کے والدین سمیت 20 باراتیوں کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ دولہے ایاز کو بھی پولیس اپنے ساتھ لی گئی تھی۔

بعد ازاں پیرجو گوٹھ پولیس نے دلہا ایاز علی ، دلہن صائمہ اور گرفتار افراد کو مقامی عدالت میں پیش کیا،جہاں عدالت نے دولہے دلہن کو آزاد کرنے اور ان کے والدین کوجیل بھیجنےکاحکم دیاتھا۔بعد ازاں تیس جنوری کو دلہا ایاز علی کا جیل میں ہی انتقال ہوا، جس پر اہل خانہ نے پیرجوگوٹھ پولیس کو مورد الزام ٹھراتے ہوئے کہا کہ دولہا پولیس لاک اپ میں رہنے کے باعث بیمار ہوا، حراست میں اُسے سخت ذہنی دباؤ کا سامنا تھا، جس کی وجہ سے اُس کی موت ہوئی۔

واضح رہے کہ دنیا کی پچانوے فیصد کم عمر ماؤں کا تعلق غریب ممالک سے ہے اور پاکستان کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ پسماندہ علاقوں میں یہ رواج عام ہے اور ایسی شادیوں کا نتیجہ فسٹولا اور دیگر بیماریوں کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی معیشت پر اس طرح براہ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ شادی کے بعد ایسے نابالغ شہریوں کی تعلیم رک جاتی ہے، ان کا کیریئر بننے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے اور وہ معاشرے کے مفید شہری بننے کے بجائے اپنی زندگی ایک بوجھ کی صورت بسر کرتے ہیں۔

جب کسی بچی کو زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے، تو اسے اس کے نتائج عمر بھر بھگتنا پڑتے ہیں۔ پہلے تعلیم مکمل کرنے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں اور پھر شوہر کی طرف سے زیادتی اور دوران حمل پیچیدگیوں کے امکانات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔