چین پاکستانی اقتصادی شعبوں پر کس طرح چھا رہا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 3 اگست 2021 20:20

چین پاکستانی اقتصادی شعبوں پر کس طرح چھا رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2021ء) سن 2015 ء میں چین نے کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے ایک ایسا پروگرام متعارف کرایا تھا، جس کا مقصد پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت اور تباہ حال بنیادی ڈھانچے کو سہارا دینا تھا۔ اس بلند نظر منصوبے کے تحت ملک کی جنوبی بندرگاہ گوادر کو مغربی چین سے جوڑنے کا پلان تیار کیا گیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری 'سی پی ای سی' جو کہ چینی صدر شی جن پنگ کے اینیشی ایٹیو 'بیلٹ اینڈ روڈ' کا حصہ ہے، کے ذریعے پاکستان میں 46 بلین ڈالر یا 38.7 بلین یورو کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

لیکن اب تازہ ترین اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ مالیت بڑھ کر تقریبا 65 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔

سی پی ای سی کے پہلے مرحلے کے دوران درجنوں منصوبے، بنیادی طور پر بجلی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق، چینی رقوم کی مدد سے انجام پائے۔

(جاری ہے)

دوسرے مرحلے میں، جو گزشتہ دسمبر میں شروع ہوا تھا اور 27 منصوبوں پر مشتمل ہے، مینوفیکچرنگ کی صلاحیت اور روزگار کے مواقع بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

چین نا صرف پاکستان کے اقتصادی مراکز بلکہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور شمالی صوبے خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں بھی بھاری رقم لگا رہا ہے۔ بہت سے پاکستانی باشندے چینی سرمایہ کاری سے بہت خوش ہیں کیونکہ انہیں اپنے لیے شدید معاشی بحران سے نکلنے کا ایک موقع نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں معاشی بدحالی میں غیر معمولی اضافہ کورونا کی وبا بنی ہے۔

اس کے سبب دسیوں ہزار چھوٹے چھوٹے کاروبار بند ہو گئے ہیں اور 20 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستانی معیشت کے لیے ایک نعمت

پاکستانی کا صوبہ خیبر پختونخوا 2004 ء سے 2015 ء کے درمیان دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔ وہاں کے قبائلی علاقوں کو شدت پسندوں کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ وہاں حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ سے وابستہ افراد بھی اپنے قدم جمائے ہوئے تھے۔

وہاں کی سکیورٹی کی تشویشناک صورتحال کے سبب بہت سے مغربی ممالک کے سرمایہ کار اس صوبے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں تھے۔ کراچی چیمبرز آف کامرس کے سابق صدر قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ چین مغرب کی طرف سے چھوڑے گئے خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھا ہے۔ خیبر پختونخوا 'ویمن چیمبرز آف کامرس' سے وابستہ انیلا خالد کہتی ہیں کہ چینی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کے لیے باعث نعمت ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''چین نے پہلے سی پی ای سی کے ذریعے ہمارے صوبے میں سرمایہ کاری کی اور اب بیجنگ حکومت صحت و صفائی کے متعدد پراجیکٹس پر دہشت گردی کے خطرات کے باوجود سرمایہ کاری کر رہی ہے۔''

سندھ میں چینی سرمایہ کاری

پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں چینی فرموں یا کمپنیوں نے نا صرف سی پی ای سی کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچایا ہے بلکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کمپنی کے بھی 40 فیصد حصص خرید لیے ہیں۔

پاکستان کے ایک ممتاز بزنس مین احمد چنوئی کا تعلق بندرگاہی شہر کراچی سے ہے اور وہ اسٹاک ایکسچینج کمپنی پی ایس ایکس کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''چین اب پی ایس ایکس کے مینیجنگ ڈائریکٹر، چیف فائنانشل آفیسر اور چیف ریگیولیٹری آفیسر کو مقرر کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔'' احمد چنوئی کا مزید کہنا تھا،''اس طرح کی تقرریوں کے باوجود بورڈ آف ڈائریکٹرز کی توثیق کی جانی چاہیے۔

''

گزشتہ جون میں اسٹاک ایکسچینج پر بلوچ باغیوں نے حملہ کیا تھا۔ یہ باغی بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری سے ناراض ہیں۔ ان حملوں سے بے نیاز ہو کر بیجنگ حکومت بلوچستان میں اپنے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ ڈوئچے ویلے کو متعدد ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ چین کراچی میں ایک پاور یوٹیلیٹی خریدنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، جو پاکستان کی سب سے بڑی پاور کمپنیوں میں سے ایک ہو گی۔

ایک علاقائی حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا،'' چین سندھ میں ہر جگہ اور ہر شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔''

سستی مزدوری اور زیادہ منافع

لاہور میں مقیم تجزیہ کار احسن رضا کا خیال ہے کہ گزشتہ برس پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی قریب 100 چینی سرمایہ کاروں سے ملاقات کے نتیجے میں چینیوں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کی ترغیب ملی۔

احسن رضا کہتے ہیں،''حکومت نے عام طور پر سرمایہ کاروں اور خاص طور پر چینی سرمایہ کاروں کے لیے ریگولیٹری فریم ورک میں اصلاحات متعارف کروائی ہیں، لہذا وہ ہوٹلوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کام، کنسلٹینسی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔''

ان کا خیال ہے کہ یہ سستی لیبر اور زیادہ منافع کا مارجن ہے، جو چینیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر مجبور کر رہا ہے۔

اگرچہ حکومت نے تمام سرمایہ کاروں کے لیے نرمی اور مراعات کا اعلان کیا ہے لیکن مغربی کاروباری افراد پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ، ''اس کے علاوہ چینی 100 فیصد منافع واپس انویسٹ کر سکتے ہیں کیونکہ ملک میں دوبارہ سرمایہ کاری کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے۔''

دوسری جانب پاکستان میں چند کاروباری افراد کا دعویٰ ہے کہ سرکاری معاہدوں کے ضمن میں چینی معاہدوں کے حوالے سے چینی کمپنیوں کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن اسلام آباد حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

ایس خان (ک م/ ا ا)