افغانستان، قائم مقام وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کی رہائش گاہ پر حملہ

DW ڈی ڈبلیو بدھ 4 اگست 2021 11:20

افغانستان، قائم مقام وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کی رہائش گاہ پر حملہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2021ء) افغان حکام کے مطابق اس واقعے میں متعدد چھوٹے دھماکوں اور بندوقوں کے چلنے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان دھماکوں میں یا مسلح حملے میں کسی کی ہلاکت ہوئی ہے یا نہیں۔ تاہم بعض غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق تین افراد ہلا ک ہوئے ہیں۔

افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری فی الحال کسی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے، تاہم یہ دھماکا ایسے وقت ہوا ہے جب طالبان عسکریت پسندوں کی تیز رفتار پیش قدمی جاری ہے اور انہوں ملک کے جنوبی اور مغربی صوبائی دارالحکومتوں پر اپنا دباؤ کافی بڑھا دیا ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان میر وائس اشٹانک زئی نے بتایا کہ یہ دھماکا پوش علاقے شیر پور میں ہوا جو کہ انتہائی محفو ظ علاقہ سمجھا جاتا ہے اور گرین زون کے نام سے مشہور ہے۔

(جاری ہے)

اس علاقے میں متعدد سینیئر سرکاری عہدیداروں کے مکانات ہیں۔

اشٹانک زئی کا کہنا تھا کہ اس حملے میں قائم مقام وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کے مہمان خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان کی جماعت اسلامی پارٹی نے کہا کہ جس وقت یہ حملہ ہوا محمدی گھر میں موجود نہیں تھے اور ان کے اہل خانہ کو بحفاظت نکال لیا گیا۔

پارٹی کے ایک رہنما اور سابق نائب صدر یونس قانونی نے سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنے ایک پیغام میں کہا کہ وزیر اور ان کا کنبہ محفوظ ہے۔

وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک ویڈیو میں محمدی کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک خود کش حملے میں ان کے محافظ زخمی ہوگئے۔

" میں اپنے عزیز اہل وطن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس طرح کے حملے ملک کے عوام اور ملک کی حفاظت کرنے کے میرے عزم کو متاثر نہیں کرسکتے۔"

گوکہ حملے کی تفصیلات واضح نہیں ہیں تاہم بتایا جاتا ہے کہ دھماکے کے بعد بندوق بردار گھر میں داخل ہوگئے۔ اسٹانک زئی نے کہا کہ ان کے سکیورٹی گارڈز نے تمام چار حملہ آوروں کو قتل کردیا اوربعد میں پولیس نے پورے معاملے کو سنبھال لیا۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر دفاع کے گھر کو جانے والی تمام سڑکیں بند کردی گئی ہیں۔

طالبان شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں، امریکا اور برطانیہ کا الزام

کابل پولیس کے سربراہ فردوس فرمارز نے بتایا کہ جائے وقوعہ علاقے سے درجنوں رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر بھیج دیا گیا ہے اور سکیورٹی فورسیز ہر گھر کی تلاشی لے رہی ہیں۔

وزات صحت کے ترجمان دستگیر نظاری کا کہنا تھا کہ حملے میں زخمی ہونے والے کم از کم دس افراد کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔

کابل میں حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے تاہم بیشتر حملوں کے بارے میں کسی نے دعویٰ نہیں کیا جبکہ حکومت ان حملوں کے لیے طالبان کو مورد الزام ٹھہرارہی ہے لیکن دوسری طرف طالبان نے حکومت پر ایسے حملے کرانے کا الزام لگایا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا،”میں اس حوالے سے باضابطہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں فی الحال نہیں ہوں لیکن بلاشبہ اس حملے میں بھی وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جو حالیہ ہفتوں میں طالبان کے ذریعہ کیے جانے والے حملوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

"

افغانستان: جنگ اب گلیوں اور سڑکوں تک پہنچ چکی ہے

انہوں نے مزید کہا،”ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے افغان شرکاء کار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات پر عالمی برادری کا وسیع تر اتفاق ہے کہ اس تصادم کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ہم ایسے طریقے اور ذرائع تلاش کررہے ہیں جس کے ذریعہ امن مذاکرات کی مدد کرسکیں۔"

ج ا/ ع ت (اے پی، روئٹرز)