امریکی بحریہ کا تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا اعلان‘تیسری عالمی جنگ کی بازگشت؟

بھارت کی جنگی مشقوں میں شرکت کے اعلان پر پاکستان نے بھی فوجوں کو چونکا رہنے کے احکامات جاری کردیئے‘امریکا کا ”ایڈونیچر“عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے.ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 4 اگست 2021 12:50

امریکی بحریہ کا تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا اعلان‘تیسری عالمی ..
واشنگٹن/نئی دہلی /اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اگست ۔2021 ) امریکی بحری افواج نے 15اگست کو تاریخ کی سب سے بڑی مشقیں کرنے کا اعلان کیا ہے جنہیں دنیا کے دفاعی ماہرین عالمی امن کے لیے خطرہ قراردے رہے ہیں‘ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کا اتنا بڑا ”ایڈونیچر“عالمی جنگ میں بدل سکتا ہے. جنگی مشقوں میں دنیا کے 17مختلف ٹائم زونزمیں قائم امریکی اڈوں میں تعینات بحری بیڑے حصہ لیں گے امریکی بحریہ اور محکمہ دفاع کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگی مشقوں کا مقصد کچھ ”طاقتوں“کو باور کروانا ہے کہ امریکا بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے.

(جاری ہے)

ادھر جنوبی چین کے سمندروں میں پانچ ملکوں کی مشترکہ جنگی مشقوں کے لیے بھارت نے 4جنگی بحری جہازبجھوانے کا اعلان کیا ہے بھارت کی جانب سے جنگی مشقوں کے نام پر فوجوں کی نقل وحرکت نے پاکستانی افواج کو بھی چوکنا کردیا ہے . امریکا کے بحری آپریشن کے سربراہ اور میرین کور کے کمانڈر جنرل ایڈم مائیک گیلڈے نے کہا کہ بحریہ اور میرین کور نے2020میں جنگی مشقیں کرنی تھیں تاہم کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کی وجہ سے ان مشقوں کو ملتوی کردیا گیاتھا 15اگست سے شروع ہونے والی ان جنگی مشقوں میں امریکا کے دنیا بھر میں قائم فوجی اڈوں میں تعینات جنگی بحری بیڑے اور میرین شریک ہونگے.

یہ جنگی مشقیں حالیہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی مشقیں ہیں بحری آپریشنز کے سربراہ اور میرین کور کے کمانڈر نے کہا ہے کہ وہ عوامی سطح پر ان مشقوں کی تفصیلات نہیں بتاسکتے کہ کون سے یونٹ اور کتنے جنگی بحری بیڑے ان میں حصہ لیں گے لیکن ان میںایک سے زیادہ کیریئر اسٹرائیک گروپس اور ہنگامی حالات میں دنیا کے کسی بھی حصے میں فوری کاروائی کے لیے تیار رہنے والے دستے شامل ہوں گے .

جنرل گیلڈے نے کہا کہ یہ مشقیں حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی مشقیں ہونگی جن میں خصوصی سائبرٹیمیں بھی شریک ہونگی سائبرٹیموں کو شامل کرنے کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کس طرح ”دشمن“کی فوجی طاقت کو ٹیکنالوجی کے ذریعے مفلوج کیا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم ممکنہ طور پر اگلی لڑائی میں جا رہے ہیں جو کہ یقینی طور پر تمام ڈومین میں ہو گی .

امریکا کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں پر چین اور روس سمیت دیگر علاقائی طاقتوں نے اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ امریکا کی جنگی مشقوں میں اٹیمی ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں بھی شریک ہونگی تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ جنگی مشقیں صرف جنوبی چین کے سمندروں تک محدود ہونگی؟رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انہی جنگی مشقوں کا ایک حصہ اور خلیج فارس کے قریب بحیرہ عرب میں بھی منعقد ہوگا جسے ایران پر دباﺅ بڑھانے کی ایک شعوری کوشش قراردیا جارہا ہے.

جنرل گلڈے نے کچھ ”متنازع“علاقوں میں مشقوں کی جانب بھی اشارہ دیا ہے تاہم انہوں نے ان علاقوں کی تفصیل بیان نہیں کی ان کا کہنا تھا کہ مشقوں میں جدید جنگی ڈرون اوربغیر پائلٹ کے اڑنے والے جدید جنگی جہاز بھی شریک ہونگے جنہیں زمین سے ڈرون کی طرح ہی کنٹرول کیا جاتا ہے تاہم یہ جہاز ڈرون کے مقابلے میں زیادہ بھاری ہتھیار لیجانے کی صلاحیت رکھنے پائلٹ کے بغیر اڑنے والے ان جنگی طیاروں میں اٹیمی وارہیڈ سے لیس میزائیل لے جانے والا خصوصی سکوارڈن بھی شامل ہے.

ادھر بھارتی وزارت دفاع کے ایک بیان میں روانگی کی تاریخ بتائے بغیر کہا گیا ہے کہ اس کے بحری جہاز اس ماہ کے اوائل میں جنگی مشقوں میں شرکت کے لیے روانہ ہو رہے ہیں چار جہازوں پر مشتمل بھارتی ٹاسک فورس دو ماہ کے دوران مختلف بحری مشقوں میں حصّہ لے گی ان مشقوں میں امریکہ، جاپان اور آسڑیلوی فورسز کے ساتھ مالا بار بحری مشق 2021 اور جنوبی چین کے سمندر میں کثیر فریقی بحری مشقیں شامل ہیں.

حالیہ ہفتوں میں جنوبی بحیرہ چین میں بحری سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں واضح رہے کہ چین جنوبی بحیرہ چین کے تقریباً بیشتر سمندری علاقے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا آیا ہے اور اس نے کئی علاقوں میں مصنوعی جزیرے بھی تعمیر کر رکھے ہیں آبزور ریسرچ فاﺅنڈیشن کے مطابق جنوبی چین کے سمندری پانیوں میں بھارت کی دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ ایشیا بحرالکاہل خطے کے ملکوں کے ساتھ بھارت کی 55 فی صد تجارت جنوبی چین کے سمندری راستے سے ہوتی ہے جس کی مالیت تقریباً 200 ارب ڈالر سالانہ ہے.

بھارت اس سمندری راستے سے آزاد تجارت کو بلا روک ٹوک جاری رکھنے کے حق میں ہے اسے خدشہ ہے کہ اس سمندر پر چین کے بڑھتے ہوئے دعووں اور مداخلت سے اس کی تجارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے دیگر ملک اس سمندری گزرگاہ کو کسی مداخلت سے آزاد رکھنے کے خواہاں ہیں کیونکہ کل عالمی تجارت کا تعلق اس آبی گزرگاہ سے ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس راستے سے سالانہ تین ٹریلین ڈالر کے سامان کی نقل و حرکت ہوتی ہے.

صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایشیاءبحرالکاہل خطے کو اہمیت دینے کی پالیسی کی تجدید کی ہے بائیڈن انتظامیہ نے اس علاقے میں اپنے جمہوری اتحادیوں اور شراکت داروں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا خیر مقدم کیا ہے اور انہیں چین کی سرگرمیوں کا جواب دینے کی ایک کوشش قرار دیا ہے. پچھلے ماہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے سنگاپور میں باہمی تعاون کی اہمیت پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ جارحیت کا مقابلہ کرنے لیے جاری تعاون کو مزید بڑھانا ہو گا امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارت کے اس اعلان سے ایک دن قبل جرمنی نے تقریباً دو عشروں میں پہلی بار جنوبی چین کے سمندر میں اپنا جنگی بحری جہاز روانہ کیا ہے.

برلن میں حکام کا کہنا ہے کہ جرمنی کی بحریہ خود کو صرف تجارتی بحری راستوں تک محدود رکھے گی تاہم جرمنی نے اپنے اس اقدام سے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس متنازعہ سمندری علاقے سے متعلق چینی دعووں کو تسلیم نہیں کرتابرطانیہ، فرانس، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی بحر الکاحل میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے جواب میں علاقے میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہے ہیں.