تہہ خانے میں دوسری عالمی جنگ کے ٹینک کا کیا بنے گا؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 4 اگست 2021 16:40

تہہ خانے میں دوسری عالمی جنگ کے ٹینک کا کیا بنے گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2021ء) سن دو ہزار پندرہ میں جرمن تفتیش کاروں نے شمالی جرمن شہر کیل کے قریب ایک گھر پر چھاپہ مارا۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس گھر میں چوری شدہ نازی آرٹ موجود ہے۔ لیکن پولیس کو وہاں سے دوسری عالمی جنگ کا ایک ٹینک، ایک تارپیڈو، مارٹر گولے، اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور کئی دیگر ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ پندرہ سو سے زائد گولیوں کے راؤنڈز ملے تھے۔

جرمنی میں جنگی ہتھیاروں کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس عمر رسیدہ شخص کے خلاف مجرمانہ مقدمے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ ملنے والے جنگی ہتھیار کس قدر فعال تھے۔

پینتھر ٹینک کی تاریخ

سن1941 میں نازی جرمنی کے سوویت یونین پر حملے کے بعد پینتھر ٹینک کی تیاری تیزی سے جاری تھی۔

(جاری ہے)

سوویت یونین پر اچانک حملے کے باوجود نازی فوجی رہنما سوویت T34 ٹینک کی استعداد سے متاثر ہوئے۔

نازی فوج نے پینتھر کا استعمال سن 1943 میں کرنا شروع کیا۔ یہ ٹینک اپنی فائر طاقت اور تیز نقل و حرکت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ خاص طور پر یہ جنگ میں قیمتی تھا کیونکہ ان دنوں دوسرے ٹینکوں کے مقابلے میں اس کی رینج زیادہ تھی، یعنی اس طرح نازی فوجیوں کو دشمن کے حملے سے پہلے ہی اسے ہدف بنانے کی صلاحیت حاصل ہو گئی تھی۔

اس طرح کے زیادہ تر ٹینک دوران جنگ ہی تباہ ہو گئے تھے اور جو باقی بچے تھے، انہیں بعدازاں سکریپ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔

تاہم اتحادی افواج نے ایسے متعدد ٹینکوں کو استعمال بھی کیا تھا۔ جرمن ملٹری ہسٹری میوزیم سے وابستہ ڈاکٹر ژان کنڈلر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے، ''کچھ ٹینکوں کو اتحادی افواج نے استعمال کیا تاکہ ایسے ٹینکوں کی خامیوں اور خوبیوں کو جانا جا سکے۔‘‘

پولیس کو ملنے والا یہ پینتھر ٹینک سن 1977 میں ہتھیاروں کے ایک برطانوی تاجر کو ملا تھا۔

جرمن یادگاری اشیاء جمع کرنے والے کلاؤس ڈیٹر ایف کا رابطہ اس شخص سے ہوا اور یوں یہ ٹینک بذریعہ ہالینڈ جرمنی پہنچا دیا گیا۔ اُس وقت اس ٹینک کی مرمت پر پانچ لاکھ ڈوئچے مارک خرچ ہوئے تھے، جو اب تقریبا دو لاکھ پچپن ہزار یورو بنتے ہیں۔

پولیس کا چھاپہ اور بین لاقوامی میڈیا

پولیس کے چھاپے کے بعد ٹینک اور دیگر ہتھیاروں کو ضبط کرنے کے لیے خاص طور پر فوجیوں کو وہاں بھیجا گیا تھا۔

بیس اہلکاروں نے نو گھنٹوں میں ٹینک کو کلاؤس ڈیٹر ایف کے گھر سے نکالا۔ دوسری عالمی جنگ کے اس ٹینک کی تصاویر بین الاقوامی میڈیا کی زینت بھی بنیں۔ مقامی مئیر الیگزانڈر اورتھ کا 'یو ایس اے ٹوڈے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، '' کچھ لوگ ٹرینوں کے بھاپ والے انجن جمع کرتے ہیں اور کچھ کو ٹینک پسند آتے ہیں۔‘‘

ایک مہنگا مشغلہ اور مقدمے کا آغاز

اب چار برس بعد اس مقدمے کا آغاز کیا گیا ہے۔

جج یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا کلاؤس ڈیٹر ایف نے جرمن قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ ضبط کیے گئے ہتھیاروں کا مستقبل کیا ہو گا؟ بہت سے مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نازی دور کے اس ٹینک کی مرمت کے لیے اس قدر زیادہ پیسہ کیوں خرچ کیا گیا؟ جس وقت یہ ٹینک ضبط کیا گیا تھا، اس وقت ملزم کی عمر اٹھہتر برس تھی اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ اسے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

وکیل دفاع کے مطابق ان کے موکل نازیوں سے ہمدردی نہیں رکھتے اور یہ کہ ٹینک کی مرمت ان کی زندگی کا ایک مشغلہ بن گیا تھا۔ اس حوالے سے کوئی بھی عدالتی فیصلہ رواں ماہ کے اوآخر میں سامنے آ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ملزم کو معطل سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ جرمن ملٹری ہسٹری میوزیم سے وابستہ ڈاکٹر ژان کنڈلر کا کہنا تھا، ''دنیا میں ایسے افراد بھی ہیں، جن کے پاس ذاتی ٹینک ہیں لیکن جرمنی میں قوانین نہایت سخت ہیں۔‘‘

آن بیٹسن (ا ا / ع ت)