معید یوسف کا بیان پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنے گا.ماہرین امور خارجہ

سفارت کاری میں ملکوں کے درمیان اختلافات کو اس طرح سے کھلے عام بیان نہیں کیا جاتا‘مشیرکودورے سے واپسی پر دفترخارجہ سے بریفنگ کے بعد انٹرویویا بیان دینا چاہیے تھا .وزیراعظم کے مشیرقومی سلامتی کے بیان پر خارجہ امور کے ماہرین کا شدید ردعمل

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 4 اگست 2021 23:38

معید یوسف کا بیان پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنے گا.ماہرین امور خارجہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اگست ۔2021 ) پاکستان کے دفترخارجہ کے اعلی افسران اور سفارت کاروں نے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کے امریکی صدر جوبائیڈن کی فون کال کے حوالے سے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کے بیان کو سفارتی آداب کے منافی اور غیرذمہ درانہ قراردیا ہے . سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا کہ سفارت کاری میں ملکوں کے درمیان اختلافات کو اس طرح سے کھلے عام بیان نہیں کیا جاتا انہوں نے کہا کہ ملکوں کے درمیان دوستیاں مستقل ہوتی ہیں ناں ہی دشمنیاں ‘انہوں نے کہا کہ پاکستان آج بھی سب سے زیادہ برآمدات امریکا کو کرتا ہے اس لیے ہمیں پاک امریکا تعلقات پر بڑی احتیاط سے کرنی چاہیے.

(جاری ہے)

سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ معیدیوسف سمیت دیگروزراءاور مشیران کو خارجہ امور پر بیان بازی نہیں کرنی چاہیے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسے معاملات پر وزارت خارجہ کو بریفنگ دی جاتی ہے جس پر سفارتی آداب اور زبان کے مطابق دفتر خارجہ بیان جاری کرتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ہر حکومتی عہدیدار اپنے محکمے کے علاوہ دیگر تمام محکموں کے معاملات میں ایکسپرٹ ہوتا ہے.

شمشاد احمد خان نے کہا کہ معید یوسف کو دورہ امریکا سے پہلے دفتر خارجہ سے بریفنگ لینی چاہیے تھی اور دورہ امریکا کے بعد کسی بھی انٹرویو یا بیان سے پہلے وزارت خارجہ سے راہنمائی لینی چاہیے تھی انہوں نے کہا کہ مشیرقومی سلامتی کے انٹرویو سے لگتا ہے کہ انہوں نے وزارت خارجہ سے کوئی بریفنگ لی ہے نہ ہی راہنمائی کے لیے کوئی رابط کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ معید یوسف کا بیان دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنے گا.

وزارت خارجہ کے سابق ترجمان اور انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے معید یوسف کے بیان کے بارے میں کہا کہ ایسے بیانات دینے سے اجتناب برتنا چاہیے تھا بلکہ ایسی باتوں کو عوامی سطح پر زیر بحث بھی نہیں لانا چاہیے تھا واضح رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ اگر امریکی صدر جو بائیڈن پاکستانی قیادت کو نظر انداز کرتے رہے تو پاکستان کے پاس اور بھی آپشن ہیں.

ادھر امریکی انتظامہ کا کہنا ہے کہ صدربائیڈن ابھی تک متعدد عالمی راہنماﺅں سے ذاتی طور پر بات نہیں کر پائے ہیں وہ صحیح وقت آنے پر خود وزیر اعظم خان سے بات کریں گے امریکی جریدے”فنانشل ٹائمز“ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں معید یوسف کا کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر نے اتنے اہم ملک کے وزیر اعظم سے بات نہیں کی جس کے بارے میں خود امریکا کہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں کچھ معاملات میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم ”اشاروں“ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں.

قومی سلامتی کے مشیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں طالبان تیزی سے اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں ایک طرف افغان حکومت پاکستان پر طالبان کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر رہی ہے تو دوسری جانب پاکستانی حکام کو گلہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا برتاﺅ کر رہا ہے اس امر کے باوجود کہ پاکستان نے طالبان راہنماﺅں کو امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے لیے رضامند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی باہمی تعلقات بڑھانے کی عمران خان کی کوششوں میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی ہے.

وزارت خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط نے معید یوسف کی جانب سے ”دوسرے آپشن“یا دوسرے راستوں کے تذکرے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اس پر تو معید یوسف خود بہتر جواب سکتے ہیں صرف ٹیلیفون کال نہ آنے پر اس طرح کے بیانات دینا مناسب نہیں تھا. انہوں نے کہاکہ ٹیلیفون کال کو پاکستان امریکہ کے تعلقات میں ایک بڑا مسئلہ بنا دینا غیر سمجھداری کی بات ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں کوئی ایک لاکھ پاکستانی رہتے ہیں اور وہ لوگ دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کا تجارتی پارٹنر ہے اور امریکہ نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے.

عبدالباسط نے کہا کہ معید یوسف کے بیان کے مطابق امریکہ نہیں تو اور اگر ان کا مطلب چین سے ہے تو یہ کہنا مناسب نہیں ہے کیونکہ چین کے ساتھ پاکستان کے اپنے سٹریٹجک تعلقات ہیں اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات ہیں اور ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں جس سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے. سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاہ کوئی اور ایسے آپشن نہیں ہیں جو گیم چینجر ہو سکیں گے پاکستان اس وقت افغانستان میں بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ افغان حکومت اور نہ ہی طالبان پاکستان پر اعتماد کرتے ہیں اس لیے موجودہ حالات میں چین کا کردار اہم ہو سکتا ہے اور پاکستان بھی چین پر بھروسہ کر رہا ہے اور افغانستان میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ثالثی کے لیے چین کے کردار ادا کرنے پر زور دے گا.

انہوں نے کہا کہ چونکہ کچھ طالبان رہنماو¿ں کے خاندان پاکستان میں رہتے ہیں اس لیے پاکستان اس چیز کو کبھی کبھار استعمال کر سکتا ہے . تجزیہ نگار اور ”اردوپوائنٹ“کے ایڈیٹرمیاں محمد ندیم نے کہا کہ معید یوسف کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان موجود حالات میں اہمیت چاہتا ہے کیونکہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے معاہدے کے بعد پاکستان کی اہمیت میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے لیکن حکومت کے اہم عہدیداروں کو خارجہ امور پر بیان بازی میں احتیاط برتنی چاہیے انہوں نے کہا کہ حکومتیں دیگر ممالک کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار سفارتی ذرائع سے کرتی ہیں نہ کہ انٹرویوز اور اخباری بیانات کے ذریعے.

انہوں نے کہاکہ پاکستان امریکہ اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے لیکن اب پاکستان کے پاس ان تعلقات میں کم مواقع ہیں چین اور پاکستان کے تعلقات اگرچہ بہتر ہیں لیکن ماضی کی نسبت ان میں گرمجوشی میں کمی واقع ہوئی ہے اور سی پیک کے معاملے میں بھی زیادہ گرمجوشی نظر نہیں آ رہی اور چین حالیہ سکیورٹی صورتحال میں زیادہ اختیار چاہتا ہے. میاں ندیم نے کہا کہ معید یوسف کے بیان سے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ اگر امریکہ توجہ نہیں دے گا تو پاکستان چین سے زیادہ قریب ہو جائے گا تو یہ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے کے بعد پاکستان افغانستان میں مذاکرات اور جامع حکومت کے قیام کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکا حالانکہ پاکستان نے طالبان کے علاوہ دیگر افغان راہنماﺅں سے بات چیت کی اور اس کے لیے عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کو بلایا لیکن اس میں کوئی بہتری نہیں آ سکی.

انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دے رہا جو پاکستان چاہتا ہے اور ماضی میں جیسے امریکہ پاکستان کو توجہ دیتا تھا جیسے امریکی حکام جب بھارت جاتے تو پاکستان کا دورہ بھی کرتے تھے، اسی طرح ”کلائمیٹ سمٹ“ میں بھی پاکستان کو نہیں بلایا گیا جبکہ اب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کوئی ٹیلیفونک رابطہ نہیں کیا اس لیے ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو توجہ نہیں دے رہا.

انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے درمیان سرد مہری پائی جاتی ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے افغانستان اور خطے میں تعلقات کے حوالے سے سودے بازی ہو رہی ہے اب اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا انہوں نے کہاکہ معید یوسف جرات کریں اور کھل کر امریکا کے مطالبات کا بھی تذکرہ کردیںجو پاک امریکا تعلقات میں سردمہری کی وجہ بنے ہیں.

معیدیوسف نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار امریکی صدر جو بائیڈن سے فون کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے بات نہیں ہو سکی انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر بار بتایا گیا ہے کہ آپ کو واپس فون کال کی جائے گی یہ تکنیکی وجوہات ہیں یا کچھ بھی لیکن سچ کہوں تو لوگ اس پر یقین نہیں کرتے انہوں نے کہاکہ اگر کوئی فون کال ایک رعایت ہے، اگر سکیورٹی تعلقات ایک رعایت ہیں تو پاکستان کے پاس دیگر ”آپشن‘ ‘یا امکانات موجود ہیں تاہم معید یوسف نے ان امکانات کی تفصیل نہیں بتائی.