پاکستان افغانستان میں طاقت کے زور پر اقتدار کے حصول کو تسلیم نہیں کرے گا.معیدیوسف

دنیا کو یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ سیاسی سمجھوتے میں امریکہ کا مفاد ہے‘ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ سمجھوتہ کرکے تشدد کو روکنا ہو گا.وزیراعظم کے مشیربرائے قومی سلامتی کی واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 5 اگست 2021 16:04

پاکستان افغانستان میں طاقت کے زور پر اقتدار کے حصول کو تسلیم نہیں کرے ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 اگست ۔2021 ) پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طاقت کے زور پر اقتدار کے حصول کو تسلیم نہیں کرے گا امریکہ کے دورے پر موجود معید یوسف نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابل حکومت کو اب عسکری فتح کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور مستقبل میں کسی بھی مذاکرات میں وسیع تر حلقوں سے افغان نمائندوں کو شامل کیا جانا چاہیے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ سمجھوتہ تو کرنا ہو گا اور تشدد کو روکنا ہو گا معیدیوسف نے طالبان پر پاکستان کے مبینہ اثر و رسوخ کے استعمال کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس جو بھی محدود اثر و رسوخ تھا، ہم نے استعمال کر لیا ہے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد منطقی طور پر یہ اثر و رسوخ کم ہوا ہے دنیا کو بھی یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ سیاسی سمجھوتے میں امریکہ کا مفاد ہے.

افغانستان میں طالبان حملوں میں شدت آنے اور متعدد اضلاع جنگجوﺅں کے قبضے میں جانے کے بعدافغان وزیرخارجہ حنیف اتمراور بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کے درمیان مشاورت کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس6اگست کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے حالیہ واقعات پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ افغانستان میں امارت اسلامی کی بحالی کی حمایت نہیں کرتی.

بیان میں کہا گیاتھا کہ سلامتی کونسل کے ارکان کو افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے تشدد پر شدید تشویش ہے اور وہ تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں ادھر افغان صوبے ہلمند کے صدر مقام لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور اب شہری اشیائے خورد و نوش کی قلت کا سامنا بھی کر رہے ہیں شہر یوں کی بڑی تعداد علاقہ چھوڑکرجاچکی ہے جبکہ افغان فوج کو امریکا اور بھارت کی فضائی مددحاصل ہونے کے باوجود طالبان نے لشکرگاہ کے پولیس ہیڈکواٹرسمیت اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرلیا ہے اور افغان نیشنل آرمی کو شکست کا سامنا ہے جس کے پیش نظرصوبائی گورنرنے کابل سے بلاتاخیر مزید فوجی کمک بجھوانے کا مطالبہ کیا ہے.

ہرات میں بھی افغان فورسز کو شکست کا سامنا ہے اورطالبان کا پلڑا بھاری ہے فوج کے دستے ہتھیاروں سمیت طالبان سے جاملے ہیں جس کی وجہ سے افغان فوج کا مورال ڈاﺅن ہورہا ہے اور طالبان کو نفسیاتی برتری مل رہی ہے ہرات میں بھی طالبان نے کئی اہم سرکاری عمارتوں پر قبضے کا دعوی کیا ہے طالبان کی جانب سے اعلانات کروائے جارہے ہیں کہ شہری علاقے میں محفوظ ہیں اور انہیں صرف افغان فوج سے خطرہ ہے طالبان کے ایک ترجمان نے افغان فوج اور اس کے حامی امریکا اور بھارت پر زمینی اور فضائی حملوں میں طالبان کو بدنام کرنے کے لیے تعلیمی اداروں‘ہسپتالوں اور سویلین شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائدکرتے ہوئے عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دعوت دی ہے کہ وہ ان علاقوں میں جاکر زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور دنیا کو حقائق سے آگاہ کریں.

صوبہ قندھار کے مرکز قندھار شہر اور اس کے مضافات میں بھی طالبان اور افغان فورسز زور آزمائی کر رہے ہیں یہاں بھی افغان سیکورٹی فورسزکو پسپائی کا سامنا ہے جبکہ مقامی قبائلی سرداروں کی جانب سے طالبان کی غیرمشروط حمایت کے اعلانات کا دعوی کیا گیا ہے دوسری جانب افغانستان میں طالبان کے بڑھتے حملوں کے پیش نظر صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز میں نئے اہلکار بھرتی کرنے کا موجودہ طریقہ کار پیچیدہ ہے جسے آسان اور تیز تر بنانے کی ضرورت ہے.

انہوں نے سکیورٹی حکام کو اگلے تین ہفتوں میں خصوصی فورسز میں مزید 45 ہزار اہلکار بھرتی کرنے کی ہدایت کی ہے صدارتی محل میں صوبائی کونسلز کے رابطہ ارکان سے ملاقات میں انہوں نے طالبان پر ملک میں انتشار اور تفریق پھیلانے کا الزام عائد کیا اشرف غنی نے سکیورٹی صورتحال میں بہتری کے اپنے شش ماہی منصوبے کا اعلان بھی کیا اور صوبائی کونسلز کے نمائندگان پر اپنے اپنے صوبوں میں نئے فورسز اہلکاروں کی بھرتی کے لیے زور دیا تاکہ حکومت کو مدد فراہم کی جا سکے.

تاہم اشرف غنی حکومت کی جانب سے سیکورٹی فورسزکو تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا گزشتہ ماہ ایک امریکی نشریاتی ادارے نے انکشاف کیا تھا کہ افغان نیشنل آرمی سمیت پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسزکو کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاسکی کابل کی جانب سے نئی بھرتیوں کے اعلان پر ابھی تک عمل درآمد شروع نہیں ہوا مگر ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ موجودہ سیکورٹی فورسزکو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے بعد کون سیکورٹی فورسزمیں بھرتی کے لیے تیار ہوگا؟.

ادھرافغانستان کے سابق نائب صدر جنرل عبدالرشید دوستم ”علاج “کی غرض سے ترکی میں ایک طویل وقت گزارنے کے بعد افغانستان واپس پہنچ چکے ہیں ا±ن کی پارٹی جنبش ملی کے ایک رہنما اور ہائی کونسل برائے مفاہمت کے ڈپٹی سربراہ عنایت اللہ بابر فرہمند نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ دوستم ترکی میں علاج کروانے کے بعد واپس آ گئے ہیں جنرل دوستم واپسی پر اپنے آبائی صوبہ جوزجان گئے جہاں انہوں نے طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی نجی ملیشیا ”پیپلز فورسز“ کی قیادت سنبھال لی ہے عبدالرشید دوستم 1990 کی دہائی میں طالبان کے خلاف مزاحمت میں اہم رہنما رہ چکے ہیں ان کا طالبان کے خلاف موقف ہمیشہ سخت رہا ہے.

عبدالرشید دوستم افغانستان کی ایک متنازع شخصیت ہیں اور ان پر دسمبر 2001 میں سینکڑوں طالبان قیدیوں کو دم گھونٹ کر یا فائرنگ کے ذریعے ہلاک کرنے کا الزام ہے تاہم وہ اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں.