حکومتی اقدامات: آزادی اظہار رائے کو کچلنے کے حربے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 13 اگست 2021 19:40

حکومتی اقدامات: آزادی اظہار رائے کو کچلنے کے حربے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اگست 2021ء) واضح رہے کہ حکومت نے حال ہی میں پی ٹی ایم، سیاسی جماعتوں اور کچھ افراد کی طرف سے ٹیوٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پر ٹرینڈز اور ہیش ٹیگز پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس پر ناقدین تنقید کررہے ہیں۔

حکومت کنڑول چاہتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں

معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاءالدین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا ٹرینڈز کی نگرانی اور پی ایم ڈی اے کا مقصد میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے۔

اب کسی صحافی پر حملہ نہ ہو، حامد میر کی تنبیہ

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "حکومت نے ملکی چینلز اور اخبارات کو پہلے ہی کنٹرول میں کیا ہوا ہے لیکن سوشل میڈیا کنٹرول نہیں ہورہا۔

(جاری ہے)

‘‘ ان کے بقول سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صحافی امریکہ میں بیٹھ کر پاکستانی معاملات کو سوشل میڈیا میں شامل کرتا ہے تو یہ اسے کیسے روکیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں جب اخبارات اور مقامی ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی جاتی تھی تو بی بی سی اردو کو لوگ سنتے تھے۔ "اب تو اطلاعات کا بہاؤ اتنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک اس طرح کے فری انفارمیشن کے بہاؤ کو نہیں روک پا رہے ہیں۔ تو پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ کیسے ممکن ہوگا۔‘‘

’فحش مواد‘، پاکستان میں ٹک ٹاک ایک مرتبہ پھر بند

پاکستان کی جگ ہنسائی

معروف صحافی اور اینکر مطیع اللہ جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ڈیجیٹل میڈیا کی نگرانی اور میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو لوگ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور اس کی نااہلی پر بحث کر رہے ہیں ان کی آواز کو دبایا جائے۔

بجائے اس کے کہ حکومت اپنی کارکردگی بہتر کرے اور اظہار رائے کے حوالے سے ماحول کو بہتر بنائے۔ وہ صحافیوں پر تشدد کر رہی ہے۔ ان کے خلاف مقدمات بنا رہی ہے۔ انہیں ڈرا اور دھمکا رہی ہے۔ اس سے صرف دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو گی۔‘‘

تباہ کن پالیسیاں

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن ہر دور میں لگائی گئی ہیں لیکن جس طریقے سے موجودہ حکومت پریس فریڈم کو کچل رہی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی، اخبارات کے ڈکلیریشن کو مشکل بنایا جارہا ہے۔

صحافیوں کو جرمانے اور سزاؤں کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ اور یہاں تک کہ یوٹیوب چینلز کے قیام کو بھی نا ممکن بنایا جا رہا ہے۔‘‘

ان کے بقول حکومت ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔ " کچھ اختلافی آوازیں اس کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان کو دشمنوں کے ساتھ برابر کھڑا کیا جارہا ہے تاکہ ان کو دھمکایا جائے اور یہ پاکستان کی سیاسی نظام اور معاشرے کے لئے انتہائی تباہ کن ہوگا۔

‘‘

ٹک ٹاک آخر کتنی جانیں لے گا؟

ڈیجیٹل میڈیا ونگ کی رپورٹ مضحکہ خیز ہے

روزنامہ دی نیوز کے ادارتی صفحات کی ایڈیٹر زیب النسا برکی کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ انتہائی ناقص ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک سو چونتیس یا پینتیس صحفات کی رپورٹ میں پچاسی صفحات ٹوئیٹس کی اسکرین شوٹس پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سارے حکومت نواز یا قدامت پرستانہ خیالات رکھنے والے افراد کی بھی ٹوئیٹس ہیں۔

اس میں ایک عجیب طریقے سے حب الوطنی کا پیمانہ رکھا گیا ہے۔ جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔‘‘

میڈیا پر جبر کی تاریخ

میڈیا کے خلاف موجودہ حکومت کے اقدامات سے ملک کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان میں صحافت کے لئے یہ بد ترین دور ہے لیکن ناقدین کے مطابق پاکستان میں مختلف ادوار میں صحافیوں کے خلاف سخت قوانین بنائے گئے اور انہیں سزائیں بھی دی گئی۔

پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی دہائیوں میں پریس اینڈ پبلیکیشن قانون موجود تھا، جس کے تحت آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں بھی صحافیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور خصوصاً دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو حکومت کی طرف سے انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔

’ہر کوئی چاچا ماما بن کر بیٹھ جاتا ہے‘، پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کا عندیہ

جنرل ضیا کے دور کو صحافت کے لئے سیاہ دور کہا جاتا ہے۔

جمہوری قدروں کی پامالی کی گئی۔ ملک میں بدترین ڈکٹیٹر شپ نافذ کی گئی۔ سینسرشپ اپنی انتہا پر تھی۔ صحافیوں کو کوڑے لگائے گئے اور انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔

نواز شریف کے دور میں معروف صحافی نجم سیٹھی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا جب کہ جنرل پرویز مشرف نے بھی صحافیوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔