امریکا ‘نیٹواور افغان فوجوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟

کروڑوں ڈالر اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کے مستعفی ہونے کی راہ میں رکاوٹ تھے‘دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی‘اعلی تربیت یافتہ افواج اور ہائی ٹیک وار مشین کو پسماندہ افغانیوں نے گھنٹے ٹیکنے پر کیسے مجبور کیا. ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم کا افغانستان کی صورتحال پر تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 17 اگست 2021 14:24

امریکا ‘نیٹواور افغان فوجوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
کابل(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اگست ۔2021 ) طالبان نے کابل سمیت پورے افغانستان جس برق رفتاری سے قبضہ کیا ہے اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے جبکہ امریکی اور اس کے اتحادیوں کی تربیت یافتہ اورجدید ترین ٹیکنالوجی اورہتھیاروں سے لیس افغان سیکورٹی فورسز کچھ نہ کر سکیں. حالیہ دنوں میں جب طالبان نے ملک بھر میں قبضہ کرنے کی کوشش کی تو مغربی حمایت یافتہ ”ٹیکنوکریٹ “ حکمران ڈالروں سے چار گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر لے کر صدارتی محل سے نکلے اور نہ صرف ڈالروں سے بھرے جہازکے ساتھ افغانستان سے فرار ہوگئے بلکہ اضافی رقم انہیں ایئربیس پر ہی چھوڑنا پڑی جس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ طالبان کے ہاتھ لگ گئی ہے یہ رقم بھی کروڑوں ڈالروں میں بنتی ہے.

(جاری ہے)

تجزیہ نگاروں کے مطابق شاید ڈالروہ وجہ تھے جو اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کے مستعفی ہونے کی راہ میں رکاوٹ تھے اور جونہی انہیں کیش میں موجود یہ بھاری رقم ”ٹھکانے“لگانے کا موقع ملا وہ اپنے سرپرستوں امریکا اور نیٹو کو بھی بتائے بغیرخاموشی سے تاجکستان سے فرارہوگئے. انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس رقم کا سراغ لگائے جو اشرف غنی کابل سے لے کرفرار ہوئے ہیں اور اس رقم کو واپس لایا جائے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پچھلے بیس سالوں میں آنے والے پیسے کا آڈٹ بھی ہونا چاہیے اگر یہ آڈٹ ہوتا ہے اور اس کی رپورٹ منظرعام پر آتی ہے تو واشنگٹن سے کابل تک بڑے بڑے پردہ نشینوں کے چہروں سے نقاب الٹ جائیں گے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا مالی سکینڈل ثابت ہوسکتا ہے.

گزشتہ برس اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے طالبان سے معاہدہ کیا تھا اور ان کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کو محدود کردیا تھا جس کے بعد موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ اگست کے آخر تک ان کے فوجی افغانستان سے چلے جائیں گے جیسے ہی امریکی انخلا کی حتمی مہلت نزدیک آئی، طالبان نے تیزی سے شہر دَر شہر قبضہ کرنا شروع کیا جس کے بارے میں طالبان کا موقف ہے کہ امریکا نے شبرغان میں بمباری کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے بعد طالبان بھی معاہدے کے پابند نہیں رہے تھے.

امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے دو دہائیوں تک افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دینے اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن مغربی حمایت یافتہ حکومت بدعنوانی کی لپیٹ میں تھی کمانڈروں نے وسائل چھیننے کے لیے فوجیوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جبکہ میدان میں موجود فوجیوں میں اکثر گولہ بارود، سامان یا خوراک کی کمی ہوتی تھی اس کے علاوہ افغان سیکورٹی فورسزکی جانب سے طالبان کو اسلحہ اور جنگی سازوسامان فروخت کرنے کی خبریں بھی آتی رہیں تاہم طالبان کی سنیئرقیادت کا کہنا ہے کہ انہیں زیادہ تر اسلحہ اور فوجی سازوسامان امریکا‘نیٹو اور افغان سیکورٹی فورسز سے غنیمت میں ہاتھ آیا انہوں نے کہا کہ بہت سارے علاقوں میں نیٹواتحادی افواج اور افغان سیکورٹی فورسز جنگی سازوسامان چھوڑ کر فرار ہوئیں .

چند روز قبل طالبان جن امریکی فوجی گاڑیوں پر سوار ہوکر کابل میں داخل ہوئے ا ن کے بارے میں بھی طالبان قیادت کا کہنا ہے کہ یہ گاڑیاں بھی امریکی‘نیٹو اور افغان سیکورٹی فورسزمختلف مقابلوں میں چھوڑکرفرار ہوئے تھے. افغانستان کا موازنہ ویت نام کی جنگ امریکی بدترین شکست سے کیوں کیا جارہا ہے؟1975 میں شمالی ویتنامی فورسز کے ہاتھوں دارالحکومت سیگون پر قبضے نے ویتنام جنگ کا خاتمہ کردیا تھا افعانستان کے بگرام ایئربیس کی طرح یہاں بھی امریکا نے اپنا سب سے بڑا فوجی اڈا قائم کررکھا تھا یہ ہزاروں امریکی شہریوں اور ویتنامی اتحادیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شہر سے لے جانے کے بعد شکست کی ایک پائیدار علامت بن گئی تھی.

اگرچہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے افغانستان سے اس موازنے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سیگون نہیں ہے تاہم وہ کھلے بندوں اس شکست کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں لہذا اس کا فیصلہ تاریخ کرئے گی کیونکہ 1975میں بھی واشنگٹن نے اس شکست کو قبول نہیں کیا تھا. اس ساری صورت حال میں لوگوں کے ذہن میں ایک سوال شاید اب بھی موجود ہے کہ 20 سال افغانستان میں جنگ کے بعد کامیابی کس نے حاصل کی، امریکا، اس کے اتحادی ممالک اور افغان حکومت نے یا طالبان جنگجوﺅں نے جنہوں نے 20 سال تک اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھیں اوردنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور وار مشین کے حامل ممالک کو اپنی زمین سے جانے پر مجبور کردیاکونسل آن فارن ریلیشن کے مطابق دسمبر 1979 میں سوویت یونین کے ٹینک اور فوجی، امو دریا اور افغانستان کے قریب اترے جس کا مقصد ملک میں ہوئی بغاوت کے بعد استحکام پیدا کرنا تھا لیکن سوویت یونین کو مقامی سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مقامی افراد اور مجاہدین پر مشتمل گروپ نے امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور جلد ہی دیگر اسلامی ممالک سے لوگ بھی ان کی جدوجہد میں شامل ہو گئے جس کے بعد القاعدہ کے نام سے ایک گروپ کا قیام عمل میں آیا.

افغانستان میں روس کے خلاف گوریلا جنگ کے لیے بے پناہ مالی وسائل کی ضرورت تھی جس کے لیے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت مالدار عرب شہریوں کو جہاد کے نام پر اس جنگ میں شامل کرنے کے لیے ایک فلسطینی مبلغ استاد عبداللہ یوسف عزام کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے عرب ملکوں کے تعلیمی اداروں میں جاکر جہاد پر لیکچر دیئے کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن بھی انہی کی ”دعوت“پر جہاد افغانستان میں شریک ہوئے اور انہوں نے اپنے اربوں ڈالر امریکا کی روس کے خلاف اس جنگ میں خرچ کیئے ‘اس وقت افغان مجاہدین امریکا کے ہیرو تھے‘اس گوریلا جنگ کے نتیجے میں 1989 میں سوویت افواج واپس لوٹ گئیں جس کے بعد مجاہدین نے سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت کو ہٹا کر عبوری حکومت قائم کر لی تاہم جلد ہی مقامی کمانڈروں اور وارلارڈز میں پھوٹ پڑگئی اور افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگیا.

1994 میں قندھار میں مدارس کے چند استاتذہ نے مقامی وارلاڈزکے مظالم کے خلاف ایک چھوٹی سی تحریک شروع کی اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ تحریک نہ صرف کابل میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگی بلکہ ایک دن دنیا کی واحد سپرپاور کو شکست سے دوچار کرئے گی طالبان نومبر1994میں ہی طالبان کو پہلی کامیاب قندھار پر قبضے کی صورت میں ملی کیونکہ لوگ وارلاڈزکے مظالم سے تنگ آئے ہوئے تھے دو سال بعد ستمبر 1996 میں تحریک طالبان دارالحکومت کابل پہنچ چکی تھی انہو ں نے صدر برہان الدین ربانی کو اقتدار سے بے دخل کردیا جو پشتون مخالف اور کرپٹ تصور کیئے جاتے تھے.

طالبان نے افغانستان کو امارات اسلامی قرار دیا اور ملک کے 90 فیصد سے زائد پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ملا عمر کو امیر المومنین بنانے کا اعلان کیا گیا اور اسلامی شرعی حدودنافذکردیں طالبان کے 5 سالہ دور اقتدار کے درمیان ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، خواتین سے ناروا سلوک اور ان کے تعلیم کے حصول پر پابندی، سماجی ذمے داریوں سے پہلو تہی برتنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے لیکن طالبان قیادت نے ان تمام تر الزامات کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کیا.

نائن الیون حملوں کے محض چند گھنٹوں بعد ہی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اسامہ بند لادن اور ان کے ساتھیوں کو حملوں کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے ملاعمر کو ایک فہرست دیتے ہوئے ان افراد کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تاہم طالبان کی حکومت نے کے انکار کے بعد امریکا نے افغانستان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا. اکتوبر 2001 میں امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کرتے ہوئے اس وقت کی طالبان حکومت کو اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور اس موقع پر عبدالرشید دوستم اور حامد کرزئی جیسے قبائلی عمائدین اور طالبان مخالف عناصر نے امریکا کی بھرپور مدد کی تھی 6 دسمبر کو قندھار بھی امریکی اور اتحادی افواج کے قبضے میں چلا گیا تھا اور حامد کرزئی کو عبوری بنیادوں پر افغانستان کی قیادت سونپ دی گئی تھی جبکہ اس دوران ملا عمر کے ساتھ ساتھ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی تلاش بھی بڑے پیمانے پر شروع کردی گئی.

طالبان کے افغانستان سے اخراج کے باوجود طالبان اور اتحادی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں تاہم جلد ہی امریکا کی زیر قیادت عالمی اتحادی افواج نے ملک کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور ملک میں بحالی کا عمل شروع ہوا 2004 میں افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور حامد کرزئی صدر منتخب ہوئے ان کے بعد اشرف غنی صدر بنے تاہم انہیں انتہائی ذلت کے ساتھ ملک سے فرارہونا پڑا اور بیس سال کی طویل جنگ کے بعد طالبان آج دوبارہ کابل کے صدارتی محل میں بیٹھے ہیں.