مینارِ پاکستان اور آزاد ملک کے آزاد باشندے

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 19 اگست 2021 14:20

مینارِ پاکستان اور آزاد ملک کے آزاد باشندے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اگست 2021ء) سب سے بڑی مشکل تو یہ ہے کہ وہ بیچارا روبوٹ نہیں ہے۔ خاتون کو دیکھ کر وہ اور کرے بھی تو کیا کرے؟ دوسرا یہ بھی دیکھیں کہ لوگ خواتین کو ایسے مواقع پر بھی گھر میں باندھ کر نہیں رکھتے۔ حالانکہ ان کو پتا بھی ہے کہ صرف ایک خاتون میں اتنا بارود ہوتا ہے کہ چار سو مردوں کا ایمان خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

اس کے باوجود ماں باپ انہیں کھلا چھوڑ دیتے ہیں پھر بیٹھ کر روتے بھی ہیں۔ توبہ توبہ!

پاکستان وہ آزاد مملکت ہے، جس کو ہم نے بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس اسلامی ریاست کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے کچھ آبا و اجداد نے بہت سی شہادتیں دیں۔ یہ قربانیاں اسی لیے دی گئی تھیں تاکہ یہاں لوگ آزادی سے رہیں۔ دیکھیں کتنی آزادی ہے۔

(جاری ہے)

کوئی بھی شخص کسی خاتون کو پوری آزادی سے ہراساں کر سکتا ہے۔

غلامی والے دور میں ایسا کرنے پر قانون آڑے آ جاتا تھا اور پولیس حرکت میں آ جاتی تھی۔ اب تو لوگ تسلی سے ویڈیو بناتے ہیں، پولیس ایک طرف کھڑی رہتی ہے اور قانون کتاب سے نکل کر باہر آنے کی ہمت نہیں کر پاتا۔

کہتے ہیں آنکھیں نہیں دماغ اندھے ہوتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے دماغ کی بینائی واپس لانے کے لیے کیسٹ تبدیل کرنا لازمی ہوتی ہے۔ آزادی وہ ہوتی ہے، جس میں ایک فرد بغیر کسی کو نقصان پہنچائے اور بغیر کسی سے خوف کھائے اپنی زندگی گزار سکے۔

لیکن اس آزاد ملک میں آدھے سے زائد آبادی گھر سے ایک قدم باہر رکھنے سے پہلے سو بار سوچتی ہے کہ کہیں کوئی مرد اسے دبوچ نہ لے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ملک آزاد نہیں ہے؟

جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔

کسی پبلک ڈومین میں عورت کا جانا اور وہاں جا کر انجوائے کرنا اتنا معیوب ہے کہ لاہور جیسے شہر میں دن دہاڑے چار سو مردوں نے ایک خاتون کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا اور وہاں کھڑے سینکڑوں مردوں میں سے کسی ایک مرد کے اندر اتنی انسانیت نہیں تھی کہ اس عورت کے لیے احتجاج کر سکے۔

اور جہاں تک حفاظتی انتظامیہ کی بات ہے تو وہ عورت کے لیے بحیثیت شہری حفاظت کے اقدامات جب تک نہیں اٹھائے گی، تب تک عورتیں اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنتی رہیں گی۔

سینٹر آف ہیومن رائٹس، یونیورسٹی کالج لاہور کی ایک ریسرچ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جنسی جرائم میں ملوث ہر چار میں سے تین ملزم بری ہو جاتے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ قانونی فریم ورک ہے۔

اس کا مطلب ہے ہائی پروفائل کیس جب تک نہیں بنتا، تب تک انصاف کو بھول جانا چاہیے۔ جہاں بریت کی شرح اس قدر بلند ہو، وہاں ذرا سوچیں عام کیسز کی کیا نوعیت ہو گی؟

کسی بھی دعوے اور ڈائیلاگ سے پہلے دو آسان سے کام کر لینا زیادہ ضروری ہیں۔ ایک تو بریت کی بلند شرح پر تحقیق کی جائے کہ یہ اتنی بلند کیوں ہے؟ دوسرا قانونی فریم کا ذرا سا جائزہ لے لیا جائے کہ آیا یہ کسی شہری کو تحفظ دلانے کے لیے کافی بھی ہیں؟