امریکی صدر کو پاکستانی وزیر اعظم سے بات کرنی چاہئے ، امریکی دانشور

سات ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن جوبائیڈن نے ابھی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے بات ہی نہیں کی، جوبائیڈن کی حکمت عملی ناقابل فہم ہے۔ ری پبلکن رہنما شان پرنیل

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 23 اگست 2021 13:38

امریکی صدر کو پاکستانی وزیر اعظم سے بات کرنی چاہئے ، امریکی دانشور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23 اگست 2021ء) : کامریکی دانشور نے امریکی صدر جوبائیڈن کو وزیراعظم عمران خان سے بات کرنے کا مشورہ دے دیا۔تفصیلات کے مطابق امریکی دانشور نے صدر جوبائیڈن کو ان کی افغانستان پالیسی پر سخت تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔غیر ملکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں ری پبلکن رہنما شان پرنیل نے کہا کہ جوبائیڈن کو افغانستان سے متعلق امور پر خطے کے ممالک سے بات کرنی چاہئے تھی۔

انہوں نے کہا کہ سات ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن جوبائیڈن نے ابھی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے بات ہی نہیں کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق پالیسی بہت مختلف تھی، وہ بھی امریکی افواج کا انخلا چاہتے تھے تاہم جس طرح جوبائیڈن نے وہاں سے فوج نکالی ہے وہ امریکہ کے لیے شرم کا باعث ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جوبائیڈن کی حکمت عملی ناقابل فہم ہے۔

ہماری افواج نے افغانستان میں اپنا خون بہایا ہے لیکن بائیڈن نے سیاسی فوائد کے لیے ان کی قربانیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔یہاں واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور ملک میں طالبان کے کنٹرول کے بعد کیے گئے سروے میں جوبائیڈن کی مقبولیت کم ترین سطح پر آگئی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی جانب سے کیے گئے سروے میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی مقبولیت میں 7 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ، کابل میں افراتفری پر ان کی پالیسیوں پر تنقید کے ساتھ ہی امریکی صدر کی مقبولیت کی درجہ بندی کم ترین سطح 46 فیصد پر آگئی کیوں کہ افغانستان کے تنازع کو سنبھالنے کی حکمت عملی کے حوالے سے جو بائیڈن کو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے بھی بدتر سمجھا جارہا ہے اور کابل سے فوج واپس بلانے کی حکمت عملی پر امریکی صدر پر ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں کی طرف سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔

امریکہ کے سابق نائب صدر مائیک پنس نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکی صدر جو بائیڈن کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے توہین آمیز ہے ، بائیڈن نے طالبان کے ساتھ کیے گئے امریکی معاہدے کو توڑ دیا ، معاہدہ میں طالبان کے امریکی افواج پر حملے بند کرنے کی شرائط تھی ، طالبان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہیں دیں گے ، افغان رہنماؤں سے نئی حکومت بنانے پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہوں گے ، ان شرائط کے بعد ہی امریکی افواج نے بتدریج افغانستان سے نکلنا تھا۔

اسی طرح افغان جنگ میں شریک ایک سابق امریکی فوجی میٹ زیلر نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کے حالات پر مایوسی کا اظہار کیا ، میٹ زیلرکا کہنا تھا کہ 20 سال میں کھربوں ڈالرز اور ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد طالبان ایک با رپھر کابل پر قابض ہوچکے ہیں ، 20 سال بعد 'اب میں یہاں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا میرے پچھلے 20 سال مکمل طور پر بیکار اور بے مقصد تھے، وہ تمام دوست جنہیں میں نے افغانستان میں کھویا، آخر ان کی موت کس لیے ہوئی؟ اگر نتیجہ یہی نکلنا تھا تو پھر انہوں نے کس لیے قربانی دی ، مجھے لگتا ہے کہ اس دوران میں نے کوئی قابل قدر کام کیا ہے