ٹیکسیشن کا نظام منصفانہ ہونا چاہئے، وفاقی محتسب جیسے اداروں کے بارے میں عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے، صدر مملکت

محتسب کے ادارے عوام کے نمائندہ ہیں، وہ عوام کیلئے سوچتے ہیں، جب ریاست کا کردار فلاحی ہو تو عوام خیرات اور زکوة کی طرح ٹیکس دیتے ہوئے فخر محسوس کریں گے، عارف علوی کا خطاب

اتوار 29 اگست 2021 00:22

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 اگست2021ء) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ٹیکسیشن کا نظام منصفانہ ہونا چاہئے، وفاقی محتسب جیسے اداروں کے بارے میں عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے، محتسب کے ادارے عوام کے نمائندہ ہیں، وہ عوام کیلئے سوچتے ہیں، جب ریاست کا کردار فلاحی ہو تو عوام خیرات اور زکوة کی طرح ٹیکس دیتے ہوئے فخر محسوس کریں گے۔

وہ ہفتہ کو یہاں ٹیکس نظام سے متعلق آگاہی سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایک سال میں پاکستان بھر سے مقام کار پر خواتین کو ہراساں کئے جانے کے حوالہ سے صرف 100 شکایات موصول ہوئیں، اس کی بنیادی وجہ عوام کو آگاہی نہ ہونا ہے، میں جب صدر مملکت بنا تو مجھے اس وقت وفاقی محتسب کے ادارے کے کام کے حوالہ سے آگاہی ہوئی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وفاقی محتسب میں شکایات سے لوگ خود گھبراتے ہیں جبکہ وفاقی محتسب کا ادارہ سرکاری اداروں سے متعلق شکایات کا ازالہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی محتسب کے اچھے فیصلوں کی خبریں چھپیں تو اس سے بھی عوام میں آگاہی ہو گی، ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر پہلے غلط راستے دکھانے اور اس سے نکلنے کیلئے بھی پیسے لئے جاتے ہیں، ہم نے ان راستہ دکھانے والوں کو پکڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے اداروں کے ساتھ جو بات چیت کا عمل شروع ہوا ہے یہ اچھا اقدام ہے، وفاقی بجٹ سے قبل یا بعد میں جب تاجروں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس دینا چاہتے ہیں تاہم اس عمل کو آسان بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مطالبہ جائز ہے کہ کم ٹیکس لگائے جائیں لیکن یہ درست نہیں کہ ہم یہ کہیں ٹیکس نہ لگائے جائیں، ٹیکس کا نظام اسلام کے ابتدائی دور سے چلا آ رہا ہے، فلاحی ٹیکس اور زکوة دو الگ الگ شعبے تھے، ہندوستان کے سارے بادشاہوں کے ادوار میں بھی ٹیکس کا نظام نافذ رہا۔صدر مملکت نے کہا کہ معیشت کو ڈیجیٹائز کرنے سے آسانیاں ہو سکتی ہیں، ہمیں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ٹولز استعمال کرنے ہوں گے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10 فیصد ہے جو انتہائی کم ہے اس کی ایک بنیادی وجہ اعتماد کی کمی ہے کیونکہ اگر ریاست یا حکومت بدعنوان ہو تو اعتماد نہیں رہتا۔

صدر مملکت نے کہا کہ اگر یہ تاثر ہو کہ ٹیکس سے اصل آمدن ریاست انصاف کے ساتھ خرچ کرے گی تو لوگ ٹیکس دیں گے، ہم نے اپنے دور میں کفایت شعاری اپنائی، میں اپنا کھاتا ہوں اور کیمپ آفس کراچی میں بھی اپنے اخراجات کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کی کامیابی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہاں حضرت عائشہ کے پاس دن کو پانچ لاکھ آئے اور رات کو ان کے پاس کھانے کیلئے ایک روٹی تھی۔

صدر مملکت نے کہا کہ صدر کا عہدہ سنبھالے تین سال ہونے کو ہیں تاہم کوئی فائل ایک دن سے زیادہ میری میز پر نہیں رہتی کیونکہ میرے پاس آنے والی فائلوں پر کافی کام ہو چکا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی محتسب کی جانب سے 50 دن میں فیصلہ کا اقدام اہم ہے جب دس دس سال فیصلوں میں لگیں تو ان پر جرمانہ ادا کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی ٹیکس آگاہی کے حوالہ سے جہاں موقع ملے بات کرتا ہوں اس کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے، وفاقی محتسب ریلیف فراہم کرنے کا ایک فورم ہے، محتسب کے ادارے عوام کے نمائندے ہیں، وہ عوام کیلئے سوچتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلق بنانے کی ضرورت ہے، عوام کی خدمت ریاست کا کام ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اچھا کماتا ہے تو جن کے پاس وسائل نہیں ہیں ان پر لگانے کیلئے وہ ٹیکس دیں، میر ٹ کی بنیاد پر دوسروں کو راستہ دینا ٹیکس کا تصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں 100 سال سے سرمایہ لوٹ کر ترقی یافتہ ممالک میں لے جانے کا سلسلہ رائج تھا، اب دنیا میں اس کی روک تھام کی سوچ پروان چڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم خیرات کرنے پر فخر کرتے ہیں اگر ریاست کا کردار فلاحی ہو تو اسی طرح ہم ٹیکس کی ادائیگی پر بھی فخر کریں گے۔