Live Updates

میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف مزاحمت کا اعلان

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 3 ستمبر 2021 20:20

میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف مزاحمت کا اعلان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 ستمبر 2021ء) یہ وارننگ قومی اسمبلی کے ایک ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے جو جمعرات دو ستمبر کو پیمرا کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اس بل کے حوالے سے کچھ اہم نکات کا تذکرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد میڈیا کارکنان کے حقوق کا دفاع کرنا اور جعلی خبروں کی روک تھام ہے۔

جبکہ اتھارٹی کے قیام کے بعد بہت سارے اداروں کو ضم کر دیا جائے گا اور میڈیا سے متعلق کئی معاملات کو احسن طریقے سے نمٹایا جائے گا۔

اب کسی صحافی پر حملہ نہ ہو، حامد میر کی تنبیہ

بل کا مقصد اختلافی آوازوں کو دبانا

تاہم صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومت بل اس لئے لا رہی ہے تاکہ اختلافی آوازوں کو دبایا جاسکے اور ملک میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جا سکے، جس کی صحافتی برادری بھرپور مزاحمت کرے گی۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے بھی حکومت پر یہ بات واضح کی ہے کہ وہ اس بل کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کریں گے اور ہر محاذ پر مخالفت کریں گے۔

سیاسی جماعتوں کی مخالفت

اس بل کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اس پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری مخالفت کر چکے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے ایک رہنما جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ بل پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے مارشل لا ہے اور یہ بالکل غیر آئینی ہے جس کی ہم ہر سطح پر مخالفت کریں گے۔

صحافیوں کے ایک وفد نے مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی ہے۔

پاکستان میں ایک اور صحافی قتل

پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان مسلم لیگ ن نہ صرف ایسی کسی بھی قانون سازی کی ڈٹ کر مخالفت کر رہی ہے بلکہ ایسی صحافت دشمن سوچ کی مذمت بھی کرتی ہے۔ یہ اتھارٹی صحافیوں سے ان کا قلم، ضمیر کی آواز کو قتل کرنے کے لیے، جرمانے اور لالچ سے لیس شقوں پر مشتمل ہے۔

"

صحافتی برادری سیخ پا

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس بل کا مقصد حکومتی کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس بل کے ذریعے اخبارات کی کلیکشن کو مشکل بنایا جارہا ہے، صحافیوں کو سزا دی جا رہی ہے اور یوٹیوب چینلز کے قیام کو بھی نا ممکن بنایا جا رہا ہے۔"

'پاکستانی ریاست صحافت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ‘

ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک کی صحافتی برادری اس مجوزہ بل پر سیخ پا ہے اور اسے غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتی ہے۔

"ہم 13 ستمبر کو ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کریں گے اور اس میں ملک بھر کی سیاسی جماعتیں بھی ہمارے ساتھ ہوں گی اورسول سوسائٹی بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔"

اسٹیبلشمنٹ کے اختراع

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے رکن فیڈرل ایکٹ کمیٹی ناصرملک کا کہنا ہے کہ یہ بل دراصل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اختراع ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "فواد چودھری صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ بل بس خیال کی حد تک ہے اور یہ کہ اس پر مختلف لوگوں سے مشورہ کیا جائے گا لیکن میری اطلاعات یہ ہیں کہ اس بل کو باقاعدہ وزارت قانون کی منظوری کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور حکومت ہر حالت میں اسے پاس کرنے کی کوشش کرے گی۔‘‘

'پاکستانی حکام بیرون ملک صحافیوں کو دھمکیاں دینے سے باز رہیں‘

ناصر ملک مزید کہتے ہیں، ''جنرل مشرف کے دور سے اس طرح کی کوشش کی جا رہی ہے اور ماضی میں صحافتی تنظیموں کی مذمت کی وجہ سے ان کو اپنا ارادہ منسوخ کرنا پڑا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت بالکل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتی ہے۔

"

ان کے بقول "اس قانون کے ذریعے پوری میڈیا انڈسٹری کو ایک 21 گریڈ کا آفیسر کنٹرول کرے گا اور پوری میڈیا انڈسٹری سرکار کے دیے گئے احکامات پر عمل کرے اور ان کی گائیڈ لائنز کو تسلیم کرے۔"

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات