حکومت کی جانب سے مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل دراصل میڈیا کا گلہ گھوٹنے کی کوشش ہے،مولانا فضل الرحمان

آزادی صحافت کیلئے میڈیا کے ساتھ کھڑے تھے اور ساتھ کھڑے رہیں گے، صحافت اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں آپ نے اپنی حریت اور آزادی کا علم بلند کیا ہے ہم دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت کرتے رہے ہیں صحافت ایک امانت ہے، امانت کیلئے دیانت کی ضرورت ہوتی ہے، ملک نظام سے چلتے ہیں افرتفری سے نہیں، آئین پاکستان میں تمام اداروں کا رول متعین ہے ، کسی کو دوسرے کے کام میں زبردستی مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے،

جمعہ 3 ستمبر 2021 23:55

آسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 ستمبر2021ء) جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ اور چیئرمین پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ صحافت ایک امانت ہے اور امانت کیلئے دیانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل دراصل میڈیا کا گلہ گھوٹنے کی کوشش ہے۔ آزادی صحافت کیلئے میڈیا کے ساتھ کھڑے تھے اور ساتھ کھڑے رہیں گے، صحافت اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔

آپ نے اپنی حریت اور آزادی کا علم بلند کیا ہے ہم دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کی دعوت پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر انکے ہمراہ پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی، آر آئی یو جے کی پریس فریڈم ایکشن کمیٹی کے چیئرمین افضل بٹ، نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم، سیکرٹری انور رضا، آر آئی یو جے کے صدر عامر سجاد سید، جنرل سیکرٹری طارق علی ورک اسٹیج پر موجود تھے، مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ ووٹ بکسے میں ڈالنے کا نہیں بلکہ بکسے سے نکالنے کا نام ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں ہر شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والوں نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے۔ ملک نظام سے چلتے ہیں افرتفری سے نہیں، آئین پاکستان میں تمام اداروں کا رول متعین ہے لہذاٰ کسی کو دوسرے کے کام میں زبردستی مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے کہ ایک ادارہ اپنے آپ کو بالا دست اور دوسروں کو اپنا ماتحت سمجھے اگر ہم آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، فساد اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم کسی دوسرے کے علاقے میں جا کر مداخلت کرتے ہیں، جن ممالک میں حقیقی جمہوریت اور سیاست ہے وہاں صحافت بھی ہے مگر جن ممالک میں ڈکٹیٹرشپ اور بادشاہت ہے وہاں صحافت بھی نہیں ہے اور وہاں ڈکٹیٹرکی مرضی سے اخبارات چھپتے ہیں، صحافت کی آزادی کے حوالے سے تحریکیں چلتی ہوئی دیکھی ہیں ہم نے خود بھی ڈکٹیٹرشپ کیخلاف تحریکیں چلائیں مگر جمہوریت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس پسپائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے نعروں کیساتھ مخلص نہیں ہیں کیونکہ ہم کمپرومائز کر جاتے ہیں، یہاں پر ایک ادارے کیساتھ وفاداری ضروری ہے پاکستان سے وفاداری کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اگر پاکستان جمہوریت کیلئے بنا ہے تو مارشل لائو ں کی اور پارلیمنٹ کی عمر دیکھ لیں اگر کسی نے تھوڑی سی جرآت دکھائی کہ چیف ایگزیکٹو میں ہوں تو اس کا انجام سب کے سامنے ہے، آج ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی کہاں ہی نائن الیون کے بعد ہم نے امریکہ کے ساتھ کمپرومائز کیا اور لوگوں کو انکے حوالے کر کے ڈالر کمائے، افغان سفیر کو ڈالروں کی خاطر امریکہ کے حوالے کیا گیا، ہمارے پڑوس میں اتنی بڑی تبدیلی آ گئی ہے اور اس خطے میں پاکستان کا ایک اہم اور مضبوط کردار ہونے کے باوجود ہم دنیا سے الگ ہیں، آج امریکہ کی دوستی کا معیار سی پیک کو تباہ کرنا ہے، اگر افغانستان پرامن ملک بنتا ہے تو آپ سوچیں کہ پاکستانی معیشت کو کتنا فائدہ پہنچے گا اور یہ کتنی مضبوط ہو گی۔

اس موقع پر پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل اور سینئر صحافی ناصر زیدی نے کہا کہ ہم اپنے زور بازو سے میڈیا پر پڑی زنجیریں توڑیں گے کیونکہ پاکستان کی ترقی کیلئے پریس کی آزادی اور رول آف لائ بہت ضروری ہے۔ جبکہ آر آئی یو جے کی پریس فریڈم ایکشن کمیٹی کے چیئرمین افضل بٹ نے اپنے مطالبات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو بریف کیا اور کہا کہ میڈیا کیخلاف بل سازش کے تحت لایا جارہا ہے۔

ہمیں اب حکومت کے کسی لولی پاپ کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنا پروگرام پیش کرینگے۔ ہمارے مطالبات ہیں کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران معاشی بحران کے نام پر جبری برطرف کئے جانیوالے صحافیوں کی بحالی، تنخواہوں، واجبات اور معاشی بحران کے نام پر تنخواہوں میں کی گئی کٹوتی کی فوری ادائیگی، صحافیوں پر تشدد، اغوائ ، اور گھروں میں گھس کر مارنے والے ملزمان کی فوری گرفتاری، صحافیوں کے پروگرواموں کی بندش اور انہیں آف ائیر کئے جانے کی بحالی شامل ہیں، جن کیلئے ہم بارہ ستمبر دن چار بجے نیشنل پریس کلب سے ریلی کی شکل میں پارلیمنٹ ہاو?س کے باہر پہنچیں گے جہاں یہ ریلی ایک دن کے دھرنے میں تبدیل ہو جائیگی اور رات کو سینئر صحافی حامد میر، طلعت حسین، نصرت جاوید اور مطیع اللہ جان پروگرام کرینگے اور تیرہ ستمبر کو صدارتی خطاب کے بعد دھرنا ختم کر دیا جائیگا۔