وائی ایل سی کا تیسرا روز،نوجوانوں کیلئے پاکستانی فنون اور ثقافت کی اہمیت کو اجاگر کیا

ہفتہ 4 ستمبر 2021 23:49

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 ستمبر2021ء) ینگ لیڈرز کانفرنس کے تیسرے دن نوجوانوں کیلئے پاکستانی فنون اور ثقافت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تاکہ وہ مستقبل میں قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔اس دن کا موضوع’ آرٹس کلچر اور سوسائٹی ایوان‘ تھا۔ اسکول آف لیڈر شپ کے رکن ارسل فہیم کی تقریر اس دن کی خاص بات تھی ، مختلف مقررین نے فنکارانہ اور ثقافتی تنوع پر بھی روشنی ڈالی جو پاکستانی معاشرے کی ایک منفرد خصوصیت ہے۔

ای بی ایم نے ملک کے ابھرتے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کیلئے اپنے 20 سال پرانے وعدے کو نبھاتے ہوئے ینگ لیڈرز کانفرنس کے تیسرے دن کو اسپانسر کیا۔ اس سال ای بی ایم کی سپورٹ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیونکہ اس ادارے نے کرونا وبا کی ایمرجنسی صورتِ حال کے باوجود کانفرنس کے انعقاد میں دلچسپی لی جبکہ وباء نے پوری دنیا میں ہونے والے بہت سے ایو نٹس میں خلل ڈالا یا انہیں صرف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک محدود کر دیا۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ ای بی ایم کے تعاون سے کانفرنس کے شرکاء کو پاکستان کی ثقافت سے آگاہی دینے کیلئے ایک میوزیکل کانسرٹ کا انعقاد بھی کیا گیا ۔ وائی ایل سی کے منتظمین نے ہر سال اس ایونٹ کے انعقاد کے حوالے سے ای بی ایم کے غیر متزلزل عزم پر ادارے کا شکریہ ادا بھی کیا ۔اس موقعے پر ای بی ایم کے برانڈ مینیجر شایان رسول نے ’الف‘ کے تصور کے حوالے سے بات کی۔

کانفرنس کا تیسرا دن انتہائی حوصلہ افزا رہا اور اس میں ہونے والی سرگرمیوں کے ذریعے پاکستان کی مختلف ثقافتوں کو نہ صرف ملک بلکہ اس کی سرحدوں کے باہر بھی پہنچانے کی کوشش کی گئی جبکہ وائی ایل سی کے شرکاء کو اپنی ثقافت اور اخلاقیات کو سمجھنے کا ایک موقع فراہم کیا گیا۔کانفرنس کے تیسرے روز کے ایک اہم مقرر یوسف بشیر قریشی نے آج کی جدید دنیا میں صنعت کاری اور ٹیکنالوجی سے چلنے والے فنون کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ ’’ڈرائنگ اور پینٹنگز سے بھی بڑھ کر آرٹ کا سب سے ضروری کام معاشرے کی جد و جہد اور جذبات کا اظہار اور احساس کرنا ہے۔یہ لوگوں کو اکھٹا کر کے کہانی سنانے کا سب سے بہترین طریقہ ہے‘‘۔جنید اقبال نے اپنے لیکچر میں خاندان، مذہب، ثقافت، صنف، تعلیمی پس منظرجیسے عوامل کی اہمیت کو اجاگر کیا جو کہ کسی بھی شخص کے سوچنے اور دنیا کو دیکھنے کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’ انفرادی سوچ کی نشونما ہمیں کچھ الگ کرنے کی طاقت دیتی ہے اور یہ اعتماد دیتی ہے کہ پرکھے جانے کے خوف کے بغیر ہم اپنی رائے کا اظہار کر سکیں اور اگر آپ کسی طاقت ور عہدے پر ہیں تو یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ آپ کی آواز دوسروں پر حاوی نہ ہو بلکہ انفرادی سوچ کی حوصلہ افزائی کرے‘‘۔ندا کرمانی نے صنفی مساوات کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی خواتین ہونے کی وجہ سے صنفی مساوات اور گھر، کام کی جگہ، میڈیا اور سیاست میں ان کی نمائندگی ہونا انتہائی اہم ہے۔

ان کے سیشن کا مقصد صنفی عدم مساوات کے حقائق کو سامنے لانا اور آج کے پاکستان میں ان کی مطابقت کو اجاگر کرنا تھا تاکہ یہ سمجھایا جا سکے کہ صنفی مساوات نہ صرف خواتین بلکہ مردوں اور پاکستان کی ترقی کیلئے بھی انتہائی اہم ہے۔ڈرم سرکل کی سرگرمی بھی کانفرنس کے تیسرے دن کا حصہ تھی۔ کلچرل نائٹ کے ذریعے شرکاء کو مختلف ثقافتیں پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔دن کا اختتام ای بی ایم کے زیرِ اہتمام میوزکل نائٹ کے ساتھ ہوا جس میں پاکستان کی معروف صوفی اور لوک گلوکارہ صنم ماروی نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔