کوئٹہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا خود کُش حملہ، کم از کم تین ہلاکتیں

DW ڈی ڈبلیو اتوار 5 ستمبر 2021 16:20

کوئٹہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا خود کُش حملہ، کم از کم  تین ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 ستمبر 2021ء) پولیس حکام کے مطابق خودکش حملہ ہزارہ برادری کے افراد کی سکیورٹی پر مامورایف سی اہلکاروں کے قافلے پر کیا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملے میں پچیس سے زائد فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

مستونگ کے نواحی علاقے مظہر آباد میں گزشتہ ماہ تیس اگست کو سکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی کے دوران شدت پسند تنظیم داعش کے گیارہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس کارروائی میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں میں داعش خراسان کے تین اہم کمانڈر بھی شامل تھے جو کہ حال ہی میں افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ کوئٹہ پولیس کے ایک سینیئر اہلکار ظہوراحمد کے بقول کوئٹہ کے نواحی علاقے میں خودکش حملہ ایک موٹر سائیکل پر سوار شخص نے کیا جس کی عمر تیس سال کے قریب تھی۔

(جاری ہے)

ہزارہ برادری کو پاکستان میں جیسینڈا آرڈرن کی تلاش

ڈٰی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،'' آج صبح مستونگ روڈ پر ایف سی اہلکاروں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب ان کی گاڑی سونا خان چیک پوسٹ کے قریب سے گزر رہی تھی۔

حملہ اور پہلے سے ہی موقع پر موجود تھا ۔ جوں ہی ایف سی اہلکار چیک پوسٹ کے قریب پہنچے تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ۔ حملے میں ہائی انٹینسٹی کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے ۔‘‘

ظہور احمد کا کہنا تھا کہ خودکش حملہ اور ہزارہ برادی سے تعلق رکھنے والے سبزی فروشوں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا انہوں نے مزید کہا،'' جس علاقے میں یہ حملہ کیا گیا ہے یہ ایک حساس علاقہ ہے اور لیویز کا حدود ہے۔

یہاں ماضی میں بھی دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔ خودکش حملے میں زخمی ہونے والے دیگر افراد مقامی شہری ہیں جو کہ قریب سے گزرتے ہوئے دھماکے کی لپیٹ میں آ گئے ۔‘‘

کاؤنٹر ٹیررزم یا انسداد دہشت گردی کے ادارے ( سی ٹی ڈی ) کے ترجمان کہتے ہیں کہ مستونگ روڈ پرخود کش حملے کے بعد کوئٹہ میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے ۔

کوئٹہ میں جاری کیے گئے ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ خودکش حملے میں ملوث شخص کے جسم کی باقیات موقع سے تحویل میں لے لی گئی ہیں جن کافرانزک ٹیسٹ کیا جائے گا۔ ترجمان سی ٹی ڈٰی کا کہنا تھا کہ دھماکے کے وقت موقع پر زیادہ لوگ موجود نہیں تھے اسی لیے جانی نقصان کم ہوا ہے ۔

افغانستان کی ستم رسیدہ ہزارہ برادری اور طالبان کا دوسرا دور

دوسری جانب بلوچستان شیعہ کانفرنس کے صدر جواد رفیعی نے خودکش حملے کو ایک بزدلانہ فعل قرار دیتے ہوئے کوئٹہ میں مقیم شعیہ ہزارہ برادری کے افراد کی سکیورٹی مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے جواد رفیعی نے مزید کہا،'' دیکھیں اس وقت ایک منظم سازش کے تحت یہاں پھرفرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جن ایف سی اہلکاروں پر آج حملہ کیا گیا ہے ان کے قافلے میں اگر ہزارہ برادی کے افراد موجود ہوتے تو جانی نقصان کئی گنا زیادہ ہوسکتا تھا ۔ ہزارہ برادی کے افراد روزانہ ایف سی کی سکیورٹی میں سبزی منڈی سے ہوکر ہزارہ ٹاؤن جاتے ہیں ۔

ہزارہ گنجی میں پہلے بھی ہزارہ برادری کے افراد کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اکثر ایسےحملوں کی ذمہ داری داعش قبول کرتی رہی ہے ۔‘‘باہمت خواتین کا عالمی ایوارڈ ہزارہ برادری کی جلیلہ حیدر کے نام

جواد رفیعی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد یہاں شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے،انہوں نے کہا،'' افغانستان میں طالبان جب سے اقتدار میں آئے ہیں شدت پسند تنظیم داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے ۔

بلوچستان میں مقیم ہزارہ برادری کو اپنی سکیورٹی کے حوالے سے فکر لاحق ہے ۔ ہم نے متعلقہ حکام سےدرخواست کی ہے کہ ہمارے قبیلے کے افراد کی سکیورٹی مزید بڑھائی جائے تاکہ سکیورٹی خدشات دور ہوسکیں۔‘‘

بلوچستان کے شورش زدہ ضلع مستونگ میں شدت پسند تنظیم داعش کے کئی کیمپ ماضی میں بھی تباہ کیے جاچکے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل داعش خراسان نے کوئٹہ سیٹیلائٹ ٹاؤن سے دو چینی شہریوں کو بھی اغواء کیا تھا۔

پاکستان میں دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد داعش خراسان پاکستان میں پھر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،'' دیکھیں حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے پھر سازشیں شروع ہو چکی ہیں ۔

عدم استحکام کی فضاء قائم کرنے کے لیے انتہاپسندی میں ملوث گروپوں کو پھر ملک دشمنوں کی جانب سے فعال بنایا جا رہا ہے ۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران بلوچستان میں بد امنی میں پھر غیر معمولی اضافہ سامنے آرہا ہے ۔آج کوئٹہ میں جو حملہ ہوا ہے اس کی ذمہ داری بھی جس تنظیم نے قبول کی ہے اس کے کئی شدت پسند داعش خراسان کا حصہ ہیں ۔‘‘

ہزارہ کون ہیں اور یہ کس سے فرار ہونا چاہتے ہیں؟

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ داعش اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث دیگرشدت پسند تنظیموں کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر کارروائی نہیں کی گئی تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں ۔

واضح رہے کہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پیغام پاکستان بیانیہ بھی حکومتی سطح پر مرتب کیا گیا ہے ۔ اس قومی بیانیے کی ترویج پر مذہبی عسکریت پسند تنظیمں کئی سوالات اٹھا چکی ہیں ۔