بلو چستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سرپرست اعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی وفات پر تعزیتی قرار داد منظور کرلی

سردار عطاء اللہ خان مینگل ایک اعلیٰ پایہ کے سیاستدان تھے ان کی وفات ایک ناقابل تلافی نقصان ہے او ریہ خلاء صدیوں تک پر نہیں ہوسکے گا ،اراکین بلو چستان اسمبلی

منگل 7 ستمبر 2021 23:00

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 ستمبر2021ء) بلو چستان اسمبلی کے اراکین نے بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ ، بلوچ قومی تحریک کے عظیم رہنماء ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ممتاز قبائلی ، سیاسی اور بزرگ شخصیت سردار عطاء اللہ خان مینگل کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کر تے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم ایک اعلیٰ پایہ کے سیاستدان تھے ان کی وفات ایک ناقابل تلافی نقصان ہے او ریہ خلاء صدیوں تک پر نہیں ہوسکے گا اسمبلی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سرپرست اعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی وفات پر تعزیتی قرار داد بھی منظور کرلی۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ چالیس منٹ کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا۔اجلاس کے آغاز پر سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے سابق وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی وفات پر گہرے رنج و غم کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل اچھے انسان اور اعلیٰ پایہ کے سیاستدان تھے ان کی وفات سے پورا ملک ایک مدبر اور بزرگ سیاستدان سے محروم ہوگیا ہے ان کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلاء مدتوں پر نہیں ہوگا انہوں نے صوبے کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں ا ور طویل جدوجہد کی میںان کی پر افتخار جدوجہد پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔

(جاری ہے)

اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے تعزیتی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اراکین بلوچستان اسمبلی بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ ، بلوچ قومی تحریک کے عظیم رہنماء ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ممتاز قبائلی ، سیاسی اور بزرگ شخصیت سردار عطاء اللہ خان مینگل کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کرتے ہیں۔ مرحوم ایک اعلیٰ پایہ کے سیاستدان تھے ان کی وفات ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

او ریہ خلاء صدیوں تک پر نہیں ہوسکے گا۔ یہ ایوان مرحوم سردار عطاء اللہ خان مینگل کے بلوچ قومی تحریک میں شاندار خدمات انجام دینے اور پشتون ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی اقوام کے توانا آواز اور بلوچ قومی تحریک میں ان کی پرافتخار جدوجہد بالخصوص محکوم ومظلوم عوام کے حقوق کے لئے قربانیوں اور طویل جدوجہد پرانہیں نہ صرف خراج عقیدت پیش کرتا ہے بلکہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔

انہوںنے سردار عطاء اللہ مینگل کی وفات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل ظلم جبر او رناانصافی کے خلاف ایک موثر آواز تھے انہوںنے ساری زندگی قوم کی خدمت اور رہنمائی کے ساتھ ساتھ جمہوریت و پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے جدوجہد کی بلوچستان کے لئے سردارعطاء اللہ خان مینگل نے کٹھن صعوبتیں برداشت کیں پابند سلاسل رہے مگر اس کے باوجود ان کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی اور وہ ظلم کے خلاف جنگ لڑتے اور توانا آواز بلند کرتے رہے۔

امید ہے کہ ان کا خاندان ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صوبے کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے انہوںنے کہا کہ ایسے عظیم لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں ان کا خلاء مدتوں پر نہیں ہوگا انہوںنے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سردار عطائ اللہ خان مینگل کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام اور سوگوار خاندان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے پارٹی کے سرپرست اعلیٰ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل ملک اور صوبے کی محکوم اقوام اور جمہوری جدوجہد کرنے والے طبقات کی آواز تھے ان کی زندگی ایک جہد مسلسل کی علامت تھی ساری زندگی انہوںنے اصولوں کی سیاست کی اور اس کی پاداش میں جیل وزنداں کی صعوبت بھی برداشت کی جلاوطن بھی رہے وہ صوبے کے پہلے منتخب وزیراعلیٰ تھے مگر بدقسمتی سے صرف نو ماہ بعد ان کی منتخب حکومت کو ختم کرکے سردار عطاء اللہ خان مینگل اور ان کے ساتھیوں کو پابند سلاسل کیا گیاصوبے میں فوج کشی کی گئی ان کے بیٹے اسد مینگل کولاپتہ کیاگیا اور آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا ان تمام مسائل ومشکلات کے باوجود سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اصولی سیاست کی جلاوطنی کے بعد بلوچستان اور سندھ کے محکوم اقوام کے لئے فرنٹ قائم کرکے محکوم اقوام کو ایک دوسرے کے قریب لائے۔

انہوں نے پونم کے پلیٹ فارم سے ناقابل فراموش جدوجہد کی اور آخری وقت میں ناسازی طبعیت کے باعث پونم کی قیادت محمودخان اچکزئی کے سپرد کی انہوںنے کہا کہ سردار عطائ اللہ خان مینگل کے جسد خاکی کو جب کراچی سے وڈھ لایا جارہا تھا تو ان کی ناقابل فراموش جدوجہد پر انہیںخراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نہ صرف مرد بلکہ خواتین کی بڑی تعداد نے سڑک پر کھڑے ہو کر اپنے قائد کی میت کا استقبال کیا ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی۔

پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے بزرگ قوم پرست رہنماء سردار عطاء اللہ خان مینگل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا شمار بلوچستان کے اہم سیاسی شخصیات اور رہنمائوں میں ہوتا ہے انہوں نے بڑے سے بڑے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا اس خطے نے سردار عطاء اللہ خان مینگل ، خان شہید عبدالصمدخان اچکزئی ، میر غوث بخش بزنجو ، نواب خیر بخش مری ، نواب بگٹی جیسے اعلیٰ پایہ کے سیاستدان پیدا کئے خان شہید عبدالصمدخان اچکزئی نے صوبے میں پہلی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ان اکابرین نے ون یونٹ کے خلاف تاریخی جدوجہد کی جس کے نتیجے میں ہمارے صوبے کو اس کی شناخت ملی اور یہاں کے عوام کو ووٹ کا حق ملا انہوںنے کہا کہ یہ انہی اکابرین کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ آج ہم یہاں عوام کے نمائندے بنے بیٹھے ہیں اگر ہمارے اکابرین نے جدوجہد اور قربانیاں نہ دی ہوتیں تو آج بھی ہمارے صوبے میں اسمبلی کی بجائے ایک سلیکٹڈ جرگہ ہوتا انہوںنے کہا کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نے چاروں ڈکٹیٹرز کے اقدامات کو غیرقانونی اورغیر آئینی قرار دیا سپریم کورٹ کے اس تاریخ فیصلے سے سردار عطاء اللہ خان مینگل ، خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اور دیگر اکابرین تاریخ میں سرخرو ہوئے اور ثابت ہوگیا کہ ان اکابرین کی جدوجہد حق اور اس سرزمین کے لئے تھی۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل کا انتقال صوبے کا بہت بڑا نقصان ہے وہ صوبے کے پہلے منتخب وزیراعلی ٰ تھے جسمانی طو رپر وہ ہم سے جدا ہوگئے ہیں مگر نظریاتی اور فکری طو رپر وہ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں وہ تکالیف اور مشکلات کے باوجود ستر سال تک جدوجہد کرتے رہے وہ ایک شجاع باہمت اور وڑنری لیڈر تھے انہوںنے 20سال کی عمر میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا انہوںنے کسی شخصی دستار یا وقار کے لئے نہیں بلکہ قومی دستار اور قومی وقار کے لئے جدوجہد کی اور مختلف تحریکوں کا حصہ رہے انہوںنے کچھی کینال کا تصور دیا 9ماہ کے مختصر مدت میں انہوںنے 10کروڑ روپے کے بجٹ میں بلوچستان کو بلوچستان یونیورسٹی ، بولان میڈیکل کالج کا تحفہ دیا تعلیم کے لئے خطیر رقم مختص کی انہوںنی1971ء میں پیدا ہونے والی صورتحال کی پیش گوئی1962ء میں کی تھی وہ ایک معاملہ فہم سیاستدان ، جمہوریت اور آئین پر یقین رکھنے والے لیڈر تھے ثناء بلوچ نے مختلف مواقع پر سردار عطاء اللہ خان مینگل کی کی گئی تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جدوجہد ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جمہور ، جمہوریت اور جمہوری اداروں ، آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی ، محکوم اقوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ہمارے اکابرین نے سیاست میں شائستگی کو فروغ دیا اور آنے والی نسلوں کو بتا کر گئے کہ سیاست میں شائستگی کے ساتھ کیسے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔

عوام کے حقوق کے لئے کیسے جدوجہد کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے جس وضعداری اور معاشرتی اقدار پر مبنی سیاست ہمارے اکابرین نے کی اس پر کار بند رہ کر ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوںنے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاء کرے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے خلیل جارج نے اپنی ، اپنی جماعت اور اقلیتی برادری کی جانب سے سردار عطاء اللہ خان مینگل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا بلوچستان کے سردار اور نواب اقلیتی برادری کے لئے سایہ کی مانند ہیں سردار عطاء اللہ مینگل کی وفات سے ہم ایک سایہ دار درخت سے محروم ہوگئے ان کی کمی صوبے کی تمام سیاسی جماعتیں اور عوام محسوس کررہے ہیں سردار عطاء اللہ مینگل کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔

صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں ایسے دن بھی آتے ہیں جب کسی کے بچھڑنے کا درد تمام عوام محسوس کرتے ہیں سردار عطاء اللہ مینگل کے انتقال کے دکھ کو پورے صوبے نے محسوس کیا دنیا میں لوگ اپنی ذات ، گھر یا چند لوگوں کے لئے محنت کرتے ہیں اور کچھ لوگ پوری قوم اور انسانیت کے لئے جدوجہد کرتے ہیں جن میں سردار عطاء اللہ مینگل شامل ہیں جب استحصالی نظام عروج پر تھا اس نظام کے خلاف سردار عطاء اللہ خان مینگل نے جدوجہد کی جہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی وہاں انہوں نے عوام میں شعور اجاگر کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے بچھڑنے کے دکھ کو صوبے کے کونے کونے میں محسوس کیا جارہا ہے سردار عطاء اللہ مینگل صرف ایک جماعت کے نہیں بلکہ تمام مظلوم و محکوم عوام کے رہنماء تھے ان کی سوچ ، جدوجہد اور نظریہ پوری انسانیت کے لئے تھا بلوچستان کے عوام کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ فرسودہ نظام سے نجات حاصل کی جاسکی انہوںنے کہا کہ ہمارے اکابرین کی جدوجہد کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ ایک منزل کے لئے تھی جس کے لئے انہوں نے قربانیاں دیں سردار عطاء اللہ خان مینگل کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کے نقش قدم پر چلنا ہے انہوںنے کہا کہ ملک میں اب بھی قومی سوال حل طلب ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 74سال بعد یہاں صرف پاکستانی قومی ہوتی مگر آج بھی یہاں الگ الگ قومیں ہیں جس کی وجہ قوموں کے مابین نابرابری ہے۔

فیڈریشن کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام اقوام کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے انہوںنے کہا کہ مکران میں ایک عجیب صورتحال پیدا کی گئی ہے بارڈر کی بندش کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں کوئی سننے والا نہیں یہ 35لاکھ لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے اسے حل کیا جائے انہوںنے کہا کہ پنجگور میں صرف ایک ماہ میں بیس افراد مارے جاچکے ہیں انہوںنے کہا کہ میں نے ایوان میں بھی ڈی پی او کو ہٹانے کا مسئلہ اٹھایا سپیکر نے آئی جی پولیس کو بھی بلایا تھا عوام سراپا احتجاج ہیں مگر کوئی بات نہیںسنی جارہی۔

جمعیت علماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری نے سردار عطاء اللہ مینگل کو ان کی سیاسی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سردارعطاء اللہ خان مینگل اور ہماری پارٹی کے اکابرین کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم رہا ہے جب صوبے میں سردار عطاء اللہ مینگل خان کی حکومت ختم کی گئی تو مولانا مفتی محمود جو اس وقت کے پی کے وزیراعلیٰ تھے وہ بھی مستعفی ہوگئے انہوںنے کہا کہ میں نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ہے جب ان کا جسد خاکی کراچی سے وڈھ لایا جارہا تھا تو ہزاروں کی تعداد میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی بڑی تعداد میں ان کے استقبال کے لئے کھڑی تھیں لوگ دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے جو ان کی اپنے قائد سے والہانہ محبت ہے سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اپنی وصیت میں تدفین کے لئے اس مقام کا انتخاب کیا جہاں نوری نصیرخان نے پڑائو ڈالا تھا ان کی تدفین اسی مقام پر کی گئی۔

جے یوآئی کے میر زابد علی ریکی نے کہا کہ سردار عطاء اللہ مینگل نہ صرف بلوچستان پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی اپنی منفرد شناخت رکھتے تھے وہ بلوچستان کی آواز تھے انہوںنے ملک میں بلوچ ، پشتون ، سندھی ، سرائیکی کے لئے بھی آواز اٹھائی اور تاریخ رقم کی انہوںنے کہا کہ ان کی وفات سے ہم ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگئے ہیں۔ جے یوآئی کے اصغر علی ترین نے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کے لئے اپنے دل میں درد رکھتے تھے وہ ایک پختہ سوچ ، فکر اور نظریے کے حامل تھے ان کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلاء مدتوں پر نہیں ہوگا۔

بی این پی کے رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اس سرزمین اور محکوم اقوام کے لئے جدوجہد کی وہ ایک فرد نہیں بلکہ انسٹی ٹیوٹ تھے ان کی سیاسی ، فکری اورنظریاتی جدوجہد کی بدولت آج ہم اس ایوان میں بیٹھے ہیں ان کی قربانیوں کی بدولت صوبے کو اس کی شناخت ملی سردار عطاء اللہ خان مینگل نے کبھی مینگل قبیلے کی بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی بلوچ قوم کی بات کی بلکہ وہ انسانیت پر یقین رکھتے تھے 1972ء میں صوبے میں ان کی حکومت قائم ہوئی فقط نو ماہ کے بعد ان کی حکومت ختم کرکے انہیں گرفتار کیا گیا بعدازاں انہوں نے جلا وطنی اختیار کی اور وہاں بھی انہوںنے اپنی جدوجہد ترک نہیں کی بلکہ محکوم قوموں کے لئے جدوجہد کرتے رہے انہوںنے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل قومی وحدتوں کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اپنی بیانوے سالہ زندگی میں انہوںنے یہ کوشش کی کہ مقتدرہ کو سمجھائیں کہ قومی وحدتوں کو کمزور کرکے اور نفرتوں کو فروغ دے کر فیڈریشن کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا مگر ان کی اس نیک نیتی کو بدنیتی سے تعبیر کرکے غداری کے القابات سے نوازا گیا انہیں پابند سلاسل کیا گیا ان کے بیٹے کو شہید کیا گیا مگر اس کے باوجود سردار عطاء اللہ مینگل آخری سانس تک اپنی سوچ فکر اور نظریے سے وابستہ رہے۔

جمہوری وطن پارٹی کے نوابزادہ گہرام بگٹی نے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل پوری زندگی میں اصولوں پر مبنی سیاست کرتے رہے اور کبھی اپنی سوچ اور نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا وہ آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے انہوںنے کہا کہ ہم اس بات کو یاد رکھیں گے کہ جب دو ہزار چھ میں نواب اکبرخان بگٹی کو شہید کیا گیا تھاتب بی این پی کے اراکین نے اسمبلیوں سے استعفے دے دیئے تھے انہوںنے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل نے جو سوچ اور نظریہ دیا اس کے تحت یہاں کے عوام اب بھی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے حق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔

صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اربوں انسان آج کی دنیا میں رہتے ہیں اتنے ہی لوگ اس دنیا سے جا چکے ہیں مگر تاریخ کچھ لوگوں کو ہی یاد کرتی ہے تاریخ صرف ان عہدساز لوگوں کو یاد کرتی ہے جو اپنے کردار اور جدوجہد سے تاریخ رقم کرتے ہیں سردار عطاء اللہ مینگل ایک ایسی ہی عہد سازشخصیت تھے انہوں نے عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کی۔

پسماندگی کے خاتمے اور سیاسی و معاشی حقوق کے لئے جدوجہد کی بلوچستان کو صوبے کا درجہ دلانے کی جدوجہد میں ان کا اہم کردار رہا وہ اس صوبے کے پہلے وزیراعلیٰ بنے مگر اس کے بعد پوری زندگی نہ تو کسی انتخابات میں حصہ لیا اور نہ ہی کوئی عہدہ لیا مگر ان کی سوچ پر چلنے والوں کی آج بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے ان کی وفات سے ایک باب بند ہوگیا ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گااللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔

جے یوآئی کے اقلیتی رکن مکھی شام لعل نے اقلیتی برادری کی جانب سے تعزیتی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل ایک عظیم لیڈر تھے دکھ کی اس گھڑی میں صوبے کی اقلیتی برادری ان کے خاندان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل ایک عظیم لیڈر تھے انہوں نے صوبے کے عوام کے لئے جو جدوجہد کی وہ تاریخ کا حصہ ہے بچپن سے ہی وہ صوبے اورصوبے کے عوام کے لئے احساس رکھتے تھے وہ صرف بی این پی کے لیڈر نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر شخص کے لیڈر تھے انہوںنے کہا کہ کبھی اقتدار کا لالچ نہیں کیا ایک دودفعہ انتخابات میں حصہ لے کر ایوان کا حصہ ضرور بنے مگر ان کی سوچ صوبے کے عوام کے لئے بہت وسیع تھی ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے سردار عطاء اللہ خان مینگل کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی وفات سے خالی ہونے والا خلاء کبھی پر نہیں ہوگا سردار صاحب نے زندگی بھر اصولوں کی سیاست کی اور ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا۔بی این پی کے ٹائٹس جانسن نے بھی سردار عطاء اللہ خان مینگل کی وفات پر گہرے رنج و غم کااظہار کرتے ہوئے ان کی وفات کو ملک اور صوبے کے لئے عظیم نقصان قرار دیا۔

بعد ازاں تعزیتی قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی۔ اجلاس میں سردار عطاء اللہ مینگل ، مولانا امیر زمان ، کوئٹہ اور زیارت میں فورسز پر حملوں میں شہید ہونے والے اہلکاروں کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ چالیس منٹ کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے ایوان میں بزرگ قوم پرست رہنماء و بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی وفات پر فاتحہ خوانی کی استدعا کی۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے زیارت مانگی ڈیم واقعے میں شہید لیویز اہلکاروں ، چمن میں قتل ہونے والے امان اللہ خان اچکزئی اور اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے سابق سینئر صوبائی وزیر مولانا امیر زمان ،مستونگ روڈ پرفورسز پرحملے میں شہید اہلکاروں ، صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے پنجگور میں فائرنگ کے واقعے میں مارے جانے والے جلیل سنجرانی کے لئے ایوان میں فاتحہ خوانی کرانے کی استدعا کی جس کے بعد ایوان میں فاتحہ خوانی کی گئی۔