سید علی گیلانی کے انتقال پر تحقیقات کرائی جائیں، شہریار آفریدی کا اقوام متحدہ سے مطالبہ

کشمیری رہنما کے دوران حراست انتقال، لاش کی بے حرمتی اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات کے اندراج کی غیر جانبدارانہ لیکن فوری تحقیقات کی جائے حریت رہنماؤں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے کووڈ 19 وبائی امراض کی آڑ میں قتل کیا جا رہا ہے، چیرمین رلیمانی کمیٹی برائے امور کشمیر کا -شہریار آفریدی کے،یو این سیکرٹری جنرل اور یو این ایچ آر سی) ہائی کمشنر خطوط

ہفتہ 11 ستمبر 2021 23:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 ستمبر2021ء) پارلیمانی کمیٹی برائے امور کشمیر کے چیئرمین شہریار خان آفریدی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے ہائی کمشنر مشیل جیریا کو خطوط لکھ کران سے مطالبہ کیا ہے کہ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی زیر حراست قتل، لاش کی بے حرمتی اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات کا اندراج کی غیر جانبدارانہ لیکن فوری تحقیقات کی جائے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے گروپ کو خط پہنچانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو سید علی گیلانی کے حراستی قتل کی فوری تحقیقات کا حکم دینا چاہیے جو کہ کشمیری رہنماؤں کیے زیر حراست قتل کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر کمیٹی کے رکن سینیٹر سرفراز بگٹی کے علاوہ حریت کانفرنس کے رہنما فیض نقشبندی اور فاروق رحمانی بھی موجود تھے۔

شہریار خان آفریدی نے کہا کہ حریت رہنماؤں کو جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی پیشہ وارانہ حکومت کی طرف سے کووڈ 19 وبا کی آڑ میں قتل کیا جا رہا ہے، اگر اقوام متحدہ اشرف خان سہرائی کے حراستی قتل کی تحقیقات کرتی تو گیلانی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ 'اب ہمیں خدشہ ہے کہ اے پی ایچ سی کے نئے سربراہ مسرت عالم بھٹ، سید شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر قاسم فکٹو اور دیگر سمیت دیگر قید کشمیری رہنماؤں کو بھی اسی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔

شہریار آفریدی نے کہا کہ بھارتی حکومت نے تمام جدوجہد آزادی کے حامی کشمیری رہنماؤں کو مارنے کا ایک منصوبہ بنایا ہے اور علی گیلانی کا قتل دوسری ہائی پرافائل قتل ہے۔انہوں نے کہا کہ علی گیلانی کے دیرینہ ساتھی اور جانشین تحریک حریت چیئرمین محمد اشرف خان صحرائی کو بھی رواں سال کے ٴْشروع میں حراست میں قتل کیا گیا تھا، انہیں جان بوجھ کر بھارت کی جیل میں رکھا گیا تھا جہاں کووڈ 19 پھیلا ہوا تھا جبکہ بھارت میں لاکھوں لوگ مر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ نقصان کشمیریوں کی آواز کو دبانے اور ان کی طویل جدوجہد آزادی کے لئے بڑا جھٹکا ثابت ہوسکتا ہے، یہاں اس معاملے کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا جس میں علی گیلانی کی موت کے بعد قابض بھارتی حکومت نے پوری وادی کشمیر میں انٹرنیٹ بند کر دیا تھا اور جب ان کی موت کی بات پھیلی تھی تو سکیورٹی کو بڑھا دیا تھا'۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر پولیس نے سید علی گیلانی کی لاش ان کے اہل خانہ سے ان کے مرنے کے چند گھنٹوں بعد زبردستی چھین لی اور سوگوار خاندان کو جنازے کے حق سے محروم کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ ظلم کافی نہیں تھا تو جموں و کشمیر میں بھارتی غیر قانونی قابض حکومت نے سید علی گیلانی کے اہل خانہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے کالے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے انسداد دہشت گردی کا قانون ہے لیکن بھارتی حکومت نے اس کالے قانون کو کشمیری رہنماؤں کے خلاف غلط استعمال کرتی رہی ہے اور ابھی حال ہی میں علی گیلانی کا خاندان اس قانون کا نیا شکار ہے۔

شہریار آفریدی نے کہا کہ اس پس منظر میں ہمیں خدشہ ہے کہ کشمیریوں کی آوازیں مزید دب جائیں گی اور جیلوں میں بند کشمیری رہنماؤں کو اسی طرح قتل کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے تیزی سے غائب ہونے والے رہنماؤں کی عدم موجودگی میں کشمیری عوام اظہار رائے کی آزادی کے اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کیسے کریں گے۔