افغانستان:بیس سال کی تربیت اور اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود ناکام رہے.امریکی وزیرخارجہ کا اعتراف

ہم طالبان کی برق رفتار پیش قدمی کادرست اندازہ لگانے میں بھی ناکام رہے‘اشرف غنی کے فرار سے حالات خراب ہوئے. اینٹونی بلنکن کا کانگریس کمیٹی کے سامنے بیان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 14 ستمبر 2021 11:07

افغانستان:بیس سال کی تربیت اور اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود ناکام ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 ستمبر ۔2021 ) امریکی کانگریس نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور پیدا شدہ صورتحال پر وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کوآڑے ہاتھوں لیا ہے اور انہیں اراکین کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا جس کے جواب میں وہ انخلاءکے فیصلے کو ٹرمپ انتظامیہ کا”ورثہ“قراردیتے رہے. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق کانگریس کے اجلاس میں ماحول خاصاگرم رہا اور وزیرخارجہ نے فیصلے کے دفاع کے حق میں مختلف دلائل دیئے انہوں نے افغانستان سے فوجی انخلا کے کام کا ٹھوس انداز سے دفاع کیا جس سے دو عشروں سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ عمل میں لایا گیا.

(جاری ہے)

ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹی کی سماعت کے دوران اپنے بیان میں بلنکن نے کہا کہ اگر صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں مسلح افواج کو تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو خاص تعداد میں امریکی فوج کو افغانستان میں تعینات کرنا پڑتا تاکہ اپنا دفاع کرنے کے ساتھ طالبان کی چڑھائی کو روکنے کا کام کیا جائے جس کا مطلب مزید جانوں کا نقصان ہوتا اور پھر تعطل کو توڑنے کی خاطر ہم ایک غیر معینہ مدت تک افغانستان کی لڑائی میں الجھے رہتے.

انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک افغانستان میں رہنے سے افغان سیکورٹی افواج یا افغان حکومت زیادہ مضبوط ہوتی یا اس قابل بنتی کہ اپنا دفاع خود کر سکے انہوں نے کہاکہ اگر 20 سال کے دوران، جس میں مالی اعانت، اسلحہ اور تربیت کا کام کیا گیا جس پر اربوں ڈالر کی لاگت آئی اگر یہ سب کچھ کافی نہیں تھا تو پھر مزید ایک سال، پانچ یا 10 برس تک رہنے سے کیا فرق پڑتا؟.

طالبان نے اگست کے وسط میں ملک پر قبضہ کیا جب صدر اشرف غنی سیاسی پناہ کے لیے متحدہ عرب امارات کے طرف بھاگ نکلے امریکہ نے اگست کے اواخر تک کابل ایئرپورٹ سے 124،000 افراد کا انخلا مکمل کیا جن میں تقریباً 5500 امریکی تھے جبکہ 100 امریکیوں کو نکالنے کے اقدامات کیئے جارہے ہیں ان میں سے چند امریکیوں کو زمینی راستے اور ایک پروازوں کے ذریعے ملک سے باہر لایا گیا ہے جس ضمن میں طالبان نے رضامندی دکھائی.

بلنکن نے کہا کہ امریکی حکام بروقت یہ نہیں بھانپ سکے کہ افغان حکومت اتنی تیزی کے ساتھ گر سکتی ہے جب طالبان ملک میں پیش قدمی کر رہے تھے انہوں نے کہاکہ محتاط اندازوں کے مطابق بھی یہ پیش گوئی ممکن نہیں تھی کہ جب امریکی افواج ملک میں موجود ہوگن تو کابل میں حکومتی افواج مات کھا سکتی ہیں انہوں نے کہاکہ حالانکہ انخلا کا اصل کام مکمل ہو چکا ہے باقی ماندہ امریکی شہریوں، افغان باشندوں اور اتحادی ملکوں کے شہریوں اور پارٹنر ملکوں کے افراد کو ملک سے باہر لانے کا کام اب بھی جاری ہے حزب اختلاف کے ری پبلکن قانون ساز اور صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹ پارٹی کے چند ساتھی، امریکی شہریوں اور ہزاروں افغان باشندوں کے انخلا کے معاملے پر انتظامیہ کے اقدامات پر تنقید کر رہے ہیں.

یہ افغان باشندے لڑائی کے دوران بحیثیت مترجم اور مشیر امریکی افواج کے ساتھ کام کرتے رہے تنقید میں خاص طور پر اس وقت اضافہ دیکھا گیا جب انخلا کے آخری دنوں کے دوران کابل ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش بم حملہ ہوا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے. داعش نے اس خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی بلنکن نے ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیا جب کہ وہ آج سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوں گے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ووٹروں کی رائے پر مشتمل ایک قومی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت افغانستان کی خودساختہ دائمی جنگ کے خاتمے کے بائیڈن کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے تاہم جس طریقے سے انخلا کا معاملہ انجام کو پہنچا وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے.

قانون ساز امریکی انٹیلی جنس کے کام پر بھی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ وہ افغانستان پر طالبان کے قبضے اور افغان حکومت کی ناکامی سے متعلق بروقت کوئی پیشگی اطلاع نہیں دے پائے ایسے میں جب صدر اشرف غنی نے اچانک ملک سے فرار ہو کر متحدہ عرب امارات میں سیاسی پناہ لی. ری پبلیکنز کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ لڑائی کے آخری ہفتوں اور دنوں کے دوران بائیڈن انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھائیں جب کہ ڈیموکریٹ اس بات کے خواہاں ہیں کہ چار امریکی صدور کی انتظامیہ کے دوران امریکہ کی جنگ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ان میں سے دو ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش اور ٹرمپ جب کہ دو ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر براک اوباما اور بائیڈن ہیں.