امریکی جامعات میں چینی جاسوسوں کی تلاش کا پروگرام بند کرنے کا مطالبہ

یہ پروگرام نسلی امتیاز اور متعدد سائنس دانوں کو دہشت زدہ کرنے کا باعث بن رہا ہے،پروفیسرزکاموقف

منگل 14 ستمبر 2021 13:08

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 ستمبر2021ء) امریکا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ایک گروپ نے ملک کے محکمہ انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جامعات میں چین کے جاسوسوں کی تلاش کے لیے شروع کیا گیا پروگرام بند کردیا جائے۔پروفیسرز کا موقف ہے کہ یہ پروگرام نسلی امتیاز اور متعدد سائنس دانوں کو دہشت زدہ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

میڈیارپورٹس کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا کہ 8 ستمبر کو لکھے گئے خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 کے اواخر میں چائنا انیشیوٹیو کے نام پروگرام شروع کیا تھا، جس کا مقصد چین کی جانب سے امریکی ٹیکنالوجی کی چوری روکنا تھا لیکن ابتدا سے ہی یہ پروگرام دعوے کے مطابق مشن سے دور ہے۔

(جاری ہے)

پروفیسرز کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں اسٹینفرڈ کی فیکلٹی کے 177 اراکین کے دستخط ہے اور اس کو آج عوام کے لیے بھی جاری کردیا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ اس سے امریکا کی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی مسابقت متاثر ہو رہی ہے اور یہ جانب داری کو ہوا دیتا ہے اور یہ نسلی امتیاز کے بارے میں تشویش پیدا کرتا ہے۔امریکی محکمہ انصاف کے ترجمان وین ہورنبکل سے چائنا انیشیٹیو پر تنقید کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت امریکی قومی سلامتی اور ہماری خطرے میں ڈالنے کی چینی حکومت کی غیرقانونی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ایشیائی نژاد امریکیوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں امتیازی سلوک کے حوالے سے انتہائی تشویش ہے۔محکمہ انصاف نے چائنا انیشیوٹیو سے متعلق کم از کم 27 کیسز کی تفصیلات شائع کردی ہیں، جس میں نتائج سمیت غلطی کے مرتکب افراد بھی شامل ہیں جبکہ چند کیسز واپس لیے گئے ہیں اور چند زیر تفتیش ہیں۔میسیچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ہاورڈ یونیورسٹی میں پروفیسرز بھی ان افراد میں شامل تھے جن پر اس حوالے سے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور اسی طرح جزوقتی اسکالرز کے طور پر کام کرنے والے 5 چینی سائنس دان بھی گزشتہ برس شامل کیے گئے تھے تاہم رواں برس جولائی میں ان سب پر عائد الزامات واپس لیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے ٹینسی میں وفاقی جج نے ایک پروفیسر کو بری کردیا تھا، جن پر الزام تھا کہ انہوں نے ناسا سے متعلق ریسرچ کے لیے گرانٹ کی درخواست میں چین سے تعلقات چھپائے تھے تاہم پراسیکیوٹر یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوا۔حکومت کو خط لکھنے والے پروفیسرز میں شامل اسٹینفرڈ میں نیچرل سائل کے سینئر ایسوسی ایٹ ڈین پیٹر مائیکلسن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایف بی آئی نے اکثر کیسز میں لوگوں کو دھمکانے، ان سے تفتیش اور تحقیقات کا خوف دلایا ہے اور یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔

اسٹینفرڈ کے ایک اور پروفیسر اسٹیون کیولسن کا کہنا تھا کہ میں اس معاملے میں پڑا تھا کیونکہ میں نے دیکھا کہ میرے چینی نژاد ساتھی کشیدہ ماحول میں مشکل میں تھے اور ان کے ساتھ یہ سب کچھ چائنا انیشیٹیو کے تحت ہو رہا تھا۔امریکا کے سابق سیکریٹری برائے توانائی اور نوبل انعام یافتہ اسٹینفرڈ کے پروفیسر اسٹیون چو کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی میں امریکا کی برتری اور مفاد کے تحفظ کے بجائے یہ پروگرام امریکا کے سائنسی پروگرام کے لیے خطرات کا موجب بن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نصف صدی کا نچوڑ ہیں اور آپ ہمیں اٹھا کر دور پھینکنا چاہتے ہیں۔