Live Updates

عالمی برادری افغانستان میں نئی حقیقت کا ادراک کرے،افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے ،پاکستان

طالبان کو بھی اپنے وعدوں کی پاسداری کیلئے ہر ضروری قدم اٹھانا ہو گا، جامع سیاسی ڈھانچہ کی تشکیل کا وعدہ پورا کیا جائے، افغانستان میں انسانی اور ممکنہ اقتصادی بحران دونوں فوری اور کٹھن چیلنجز ہیں،قومی مفاہمت سے ہی امن کو تقویت ملے گی،بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنا ایس سی او کے لیے اہم ہے، پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے،ہماری معیشت کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نقصان پہنچا،مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، ہم آزاد خودمختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں،کورونا وائرس کی صورتحال کو سیاسی بنانے کی کوششوں سے گریز کیا جانا چاہیے ، عمران خان کے اجلاسوں سے خطاب

جمعہ 17 ستمبر 2021 23:35

دوشنبے (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2021ء) وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں نئی حقیقت کا ادراک کرے،افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے ،طالبان کو بھی اپنے وعدوں کی پاسداری کیلئے ہر ضروری قدم اٹھانا ہو گا، جامع سیاسی ڈھانچہ کی تشکیل کا وعدہ پورا کیا جائے، افغانستان میں انسانی اور ممکنہ اقتصادی بحران دونوں فوری اور کٹھن چیلنجز ہیں،قومی مفاہمت سے ہی امن کو تقویت ملے گی،بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنا ایس سی او کے لیے اہم ہے، پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے،ہماری معیشت کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نقصان پہنچا،مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، ہم آزاد خودمختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں،کورونا وائرس کی صورتحال کو سیاسی بنانے کی کوششوں سے گریز کیا جانا چاہیے ۔

(جاری ہے)

جمعہ کو یہاں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے وفود کے سربراہان اور افغانستان میں رسائی کے موضوع پر کولیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او)کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم اور افغانستان کے حوالہ سے سی ایس ٹی او کے غیر معمولی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا ان کیلئے اعزاز کا باعث ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو بجا طور پر عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

وزیر اعظم نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ آج یہاں ہونے والے غوروفکر سے پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کی تلاش میں سرگرداں ایک عام افغان شہری جو پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، کے مقصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ قریبی ہمسائے کی حیثیت سے کئی عشروں سے منفی اثرات کے باعث پاکستان بری طرح متاثر ہوا اور پاکستان کا امن سے گہرا مفاد وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے، 40 سال کے تنازعات اور عدم استحکام کے بعد اب جنگ کے خاتمے اور پائیدار امن کے قیام کا امکان پیدا ہواہے، یہ صورتحال غیر متوقع طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، غیر ملکی افواج کو ایک روز واپس جانا تھا، ہماری خواہش تھی ایسا زیادہ یقینی اور متوقع انداز میں ہوتا تاہم افغان سکیورٹی فورسز کا شیرازہ بکھرنا اور افغان حکومت کا خاتمہ اتنا اچانک ہوا جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی، پھر بھی کسی خونریزی کے بغیر انتقال اقتدار ہواجو پاکستان کیلئے بہت زیادہ اطمینان کا باعث ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ خانہ جنگی کا امکان جس کے بارے میں ہمیں شدید فکر لاحق تھی ، ٹل گئی ہے اور افغان مہاجرین کے جن بڑے پیمانے پر انخلا کا خدشہ تھا خوش قسمتی سے وہ بھی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں انسانی اور ممکنہ اقتصادی بحران دونوں فوری اور کٹھن چیلنجز ہیں، افغانستان کی ایسی معیشت جس کا انحصار غیر ملکی امداد پر تھا اور وہ ایک جنگی معیشت تھی، سے پائیدار معیشت کی جانب قدم بڑھانا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس موقع پر بین الاقوامی برادری کے سامنے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ رابطوں کو بڑھایا جائے یا پھر سوویت انخلا کے بعد جس طرح ہوا اس طرح افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا جائے ، افغانستان میں عدم استحکام، جیسا کہ عظیم شاعر علامہ محمد اقبال نے بجا طور پر نشاندہی کی تھی، پورے خطہ کو متاثر کرتا ہے اور افغانستان میں استحکام پورے خطہ کے مفاد میں ہے، افغانستان کو تنہا کرنا ہمیں ایک ایسی غیر مستحکم صورتحال کی طرف واپس دھکیل دے گا جس کا نتیجہ خانہ جنگی ، ہمسایہ ممالک پر منفی اثرات، پناہ گزینوں کا سیلاب، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ، منشیات کی سمگلنگ اور منظم بین الاقوامی جرائم کی صورت میں نکل سکتا ہیاس لئے افغانستان کے ساتھ رابطے بڑھانا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

وزیراعظم نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ حقیقت پسندانہ جائزے اور عملیت پسند سوچ پر مبنی نئے تناظر کے ساتھ افغانستان میں نئی حقیقت کا ادراک کرے، ہماری تمام اجتماعی کوششوں کا مقصد سلامتی کی صورتحال کو مستحکم بنانا، کسی نئے تنازعہ اور بڑے پیمانے پر عوامی انخلا کو روکنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہم سب کے مفاد میں ہے کہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ افغانستان دوبارہ کسی دہشت گرد تنظیم کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے اس سلسلہ میں طالبان کو اپنے وعدوں کی پاسداری کیلئے ہر ضروری قدم اٹھانا ہو گا، افغانستان میں جامع سیاسی ڈھانچہ کی تشکیل کا وعدہ بھی پورا کیا جانا چاہئے ، قومی مفاہمت سے ہی امن کو تقویت ملے گی، اسی طرح طالبان کو بدنام کرنے اور داخلی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوششوں کو بھی مسترد کیا جانا چاہیے، بعض کی جانب سے اس طرح کی غیردانشمندانہ سوچ سے چیلنجز حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اس نازک موڑ پر افغان عوام کے ساتھ یکجہتی اور تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار بین الاقوامی معاونت اور اقتصادی تعاون سے زندگیاں بچائی جا سکیں گی اور استحکام پیدا ہو گا، افغانستان کے منجمد اثاثوں کو افغان عوام کی بہبود کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دینا بھی صحیح سمت میں قدم ہو گا، سیاست بازی کے بغیر افغانستان میں انسانی صورتحال پر اثر انداز ہونے والے ان معاملات سے دانشمندی سے نمٹنا ہو گا، فوری ہمسائے کی حیثیت سے پاکستان امن، ترقی اور خوشحالی کے سفر میں افغانستان کی معاونت کرنے کے کی پالیسی پر مسلسل کاربند رہا ہے، ہم نے افغان امن عمل کی ثابت قدمی سے حمایت کی اور ہمیشہ یہ موقف اپنایا کہ مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، نئی صورتحال میں ہم تعمیری انداز میں مصروف عمل رہے، ہم نے باضابطہ نقل و حمل میں سہولت کیلئے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں اور دوطرفہ اور عبوری تجارت ہونے دی، ہم نے افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کیلئے غذائی اشیا اور ادویات سے بھرے کئی جہاز بھجوائے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اندرونی طور پر اور اپنی ہمسائیگی میں امن کے ساتھ ایک مستحکم، خود مختار اور خوشحال افغانستان کا پختہ عزم رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی اور سی ایس ٹی او قدرتی طور پر محفوظ سرحدوں، دہشت گردی کے خطرے سے پاک خطہ اور وسیع تر اقتصادی ہم آہنگی اور رابطوں کے حوالہ سے وابستہ مفاد کا حامل ہے، آئیے افغانستان کی امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے ،کے سفر میں مل کر اس کی معاونت کریں اور دعا کریں کہ 40 سال کے بعد افغانستان کے عوام کو بالآخر امن اور استحکام نصیب ہو۔

قبل ازیں شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او کے 20 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تجارت، سرمایہ کاری اور روابط کے فروغ کے لئے ایس سی او ایک اہم پلیٹ فارم ہے، مواصلاتی رابطوں سے خطے میں مثبت تبدیلی آئیگی۔ وزیراعظم نے کورونا وائرس کی وبا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عالمی معیشتیں متاثر ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی دوسر ااہم چیلنج ہے جو دنیا کو درپیش ہے ،پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا ہے۔

وزیراعظم نے افغانستان کی صورتحال کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ اب افغانستان کی حقیقت دنیا کو تسلیم کرنا ہو گی، افغانستان کا مسئلہ سب کو مل کر حل کرنا ہوگا، یہ افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے،ہماری معیشت کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نقصان پہنچا۔

وزیراعظم عمران ِخان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کیلئے بڑا چیلنج ہے، ہم نے بہتر ماحول کے فروغ کیلئے شجرکاری مہم شروع کی ہے،ہم نے ملک کے ہر اس حصے میں پودے لگائے جہاں سبزہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ شجرکاری مہم کو دنیا کے مختلف ممالک میں سراہا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ افغانستان کو انسانی بحران، خوراک، بنیادی اشیاودیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آزاد خودمختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت میرے لئے باعث فخر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں تاریخی ایس سی او سمٹ کے لیے خوبصورت شہر دوشنبے میں آنے پرخوشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لمحہ دوگنا خوشگوار ہے کیونکہ یہ تاجکستان کی آزادی کی 30 ویں سالگرہ کے ساتھ ہے اور ہم تاجکستان کے برادر عوام کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں اس موقع پر صدر امام علی رحمانوف کو تاجکستان کی چیئرمین شپ کے دوران ایس سی او کی دانشمندانہ ذمہ داری پر مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او کی 20 ویں سالگرہ ہمارے اب تک کے سفر پر غور کرنے کے لیے ایک اہم موڑ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جون 2001 میں اپنے قیام سے ایس سی او نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے حجم اور قد میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم آج مجموعی طور پر دنیا کی آبادی کے 44، عالمی سر زمین کا 25، اور عالمی جی ڈی پی کے 20 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او کی معیاری اور ادارہ جاتی بنیادوں کو مضبوط بنانے ،سکیورٹی اور سماجی و اقتصادی ترقی پر عملی تعاون کو فروغ دینے میں متاثر کن پیش رفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایس سی او نے پرانے اور نئے چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم تیزی سے پیچیدہ عالمی ماحول اور جیو پولیٹیکل کشیدگی آنے والے وقتوں میں ہمارے عزم کا امتحان لے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بلاک سیاست کی طرف کسی بھی بہائو کی مزاحمت کرنی چاہیے اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ پرامن بقائے باہمی اور تعاون، تصادم نہیں بلکہ عالمی سیاست کا بنیادی محرک ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو سخت متاثر کیا ہے اور اس سے انسانی مصائب اور نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، 46لاکھ افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ 223 ملین متاثر ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اس سے دنیا بھر میں صحت عامہ کے نظام متاثر ہوا، معیشتوں کو زوال اور کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا سے غریب ہر جگہ سب سے متاثر ہوئے ہیں، 20 برسوں میں پہلی بار دنیا نے غربت میں سخت اضافہ دیکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہم نے سمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی اپنائی جس میں بیک وقت زندگی بچانے، معاش کو محفوظ بنانے اور معیشت کو متحرک کرنے پر توجہ دی گئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے سماجی تحفظ کے پروگرام احساس نے لاکھوں خاندانوں کو زندہ رہنے میں مدد دی ہے، میں نیگلوبل انیشی ایٹو فار ڈ یٹ ریلیف بھی شروع کیا تاکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے کورونا وائرس کی وبا کے منفی اثرات کو کم کرنے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ کم وقت میں کورونا ویکسین کی تیاری سائنس کا معجزہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ سائنس کو دنیا کی کوششوں کی رہنمائی جاری رکھنی چاہیے کیونکہ یہ وبائی مرض کا مقابلہ کرتی ہے۔

انہوںنے کہاکہ کورونا وائرس کی صورتحال کو سیاسی بنانے کی کوششوں سے گریز کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایسے وقت میں تقسیم ہے جب دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا ویکسین ہر ایک کو برابری کی بنیاد پر اور عالمی سطح پر عوام کی بھلائی کے لئے دستیاب ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک اور خطرہ ہے جس کا ہمیں سامنا ہے، اس کے اثرات کو کم کرنا عالمی ایجنڈے میں سب سے زیادہ ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں پاکستان کی شراکت نہ ہونے کے برابر ہے اس کے باوجود پاکستان 10 انتہائی کمزور ممالک میں شامل ہے لہذا موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا میری حکومت کی اہم ترجیح ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں جن میں 10 بلین ٹری سونامی پراجیکٹ بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کلین اینڈ گرین پاکستان کے لیے ہمارے اقدامات کا مقصد نہ صرف فطرت کی حفاظت اور ماحولیاتی نظام کو بحال کرنا ہے بلکہ سیاحت کو بڑھانا اور ہمارے نوجوانوں کے لیے ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا کرنا ہے، ہم 2030 تک اپنی 60 فیصد توانائی کو صاف رکھنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ پیرس معاہدے کے جامع نفاذ کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے نائن الیون حملوں کی20 سال مکمل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی بھرپور کوششوں کے باوجود دہشت گردی کے خطرات اب بھی برقرار ہیں، ایک مذہب کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے نے دنیا بھر میں انتہائی دائیں بازو اور بالادست گروہوں کو پروپیگنڈہ کرنے اور اثر ورسوخ قائم کرنے کا موقع دیا، چند کیسوں میں ایسے انتہا پسند اور متعصب نظریات نام نہاد جمہوریتوں میں ریاستی اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھ دوڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ان خطرات اور چیلنجوں کو نظر انداز کیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جائے گی جن میں سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی ہے جو متنازعہ علاقوں میں غیر ملکی قبضے کے تحت رہنے والے لوگوں کے خلاف کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے جس کی منصوبہ بندی، معاونت اور مالی اعانت ہماری سرحد کے اس پار سے ریاستی اداروں نے کی۔

انہوں نے کہا کہ تنازعات کے فعال علاقوں سے باہر پاکستان سے زیادہ کسی دوسرے ملک کو نقصان نہیں ہوا، ہم نے 80 ہزار سے زائد ہلاکتیں اور 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اٹھایا ہے، اس کے علاوہ لاکھوں افراد اندرونی نقل مکانی سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا عزم مضبوط ہے اور ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ عالمی برادری کے ساتھ ملکر لڑیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنا ایس سی او کے لیے اہم ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ تصفیہ طلب تنازعات کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد امن کے لیے ضروری اور تعاون کا ماحول بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ علاقوں کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہیں اور ایس سی او کو اس طرح کے اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ حالیہ واقعات کے پیش نظر افغانستان ہماری توجہ کا مرکز ہے، افغانستان کی سابق حکومت کی اچانک تبدیلی جس نے سب کو حیران کر دیا، طالبان کا قبضہ اور غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا افغانستان میں ایک نئی حقیقت قائم کر چکا ہے، یہ سب کچھ خونریزی، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کے بغیر ہوا جو اطمینان کا باعث ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ عالمی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں کوئی نیا تنازعہ نہ ہو اور سکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔ انہوں نے کہا کہ فوری ترجیحات انسانی بحران اور معاشی تنزل کو روکنا ہے، افغانستان کی سابق حکومت غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی اور اس امداد کو ختم کرنا معاشی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، یہ افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے ، ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو سراہتے ہیں کہ وہ فوری طور پر انسانی امداد کے لیے بین الاقوامی مدد کو متحرک کرنے میں آگے بڑھیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان سے انخلاکی بین الاقوامی کوششوں میں مدد کے علاوہ انسانی امداد کی فراہمی اور سہولت میں ہر ممکن تعاون کیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ عالمی برادری کی مثبت تعلق انتہائی اہم ہے، افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کا ایک نادر موقع ہے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے، اس نازک موڑ پر منفی باتیں پھیلانا یا پروپیگنڈے میں ملوث ہونا غیر دانشمندانہ ہوگا، اس سے امن کے امکانات کمزور ہونگے اور افغان عوام کو نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کو تمام سیاسی گروہوں کے لیے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے ، یہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ تمام افغانوں کے حقوق کا احترام یقینی بنایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان مسلسل تنازعات اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور پاکستان نی40 سال سے تقریبا 40 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھایا ہے اس لئے پرامن اور مستحکم افغانستان ، پاکستان کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسے باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، ہم مستحکم، خودمختار اور خوشحال افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے اپنی توجہ جیو پالیٹیکس سے جیو اکنامکس پر مرکوزکردی ہے جو امن ، ترقیاتی شراکت داری اور رابطہ پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ایک قدرتی پل کے طور پر وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے جوڑتا ہے اس کا اظہار ایس سی او کے پلیٹ فارم سے ہوتا ہے، پاکستان وسطی ایشیا میں ہمارے بہت سے شراکت داروں کے لیے سمندر کا مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔

انہوں ازبکستان کے صدر کی جانب سے تاشقند میں جولائی میں وسطی ایشیا جنوبی ایشیا کنیکٹوٹی بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کے اقدام کی تعریف کی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایس سی او خطے میں ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی روابط سے تجارت ، توانائی کے بہائو اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے کے نئے دور کا آغاز ہوگا جو خطے اور اس سے آگے ترقی اور خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ علاقائی روابط چین پاکستان اقتصادی راہداری سے مستحکم ہوں گے جو بی آر آئی کا اہم منصوبہ ہے، ہمیں موثر کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں، لوگوں کے حق خود ارادیت، ریاستوں کی مساوات اور خودمختاری، علاقائی سالمیت کا احترام اور جارحیت سے احتراز کے لیے اپنی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مربوط ایس سی او نقطہ نظر کا تعین کرنا چاہیے، ہمیں علاقائی رابطے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے، اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان 2022 میں علاقائی خوشحالی کے لیے ٹرانسپورٹ رابطہ کے موضوع پر ایک ورچوئل کانفرنس کی میزبانی کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان 2022 میں "ڈیجیٹل اکانومی کے ذریعے یوتھ ایمپاورمنٹ" کے موضوع پر ایک کانفرنس کی میزبانی کرنا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم نے ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ میں سعودی عرب، مصر اور قطر کے بھائیوں کو نئے مکالمے کے شراکت دار بننے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل نوروف کو اپنی مدت پوری کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور سفیر ژانگ منگ کو نئے سیکرٹری جنرل کے طور پر خوش آمدید کہا۔ وزیراعظم عمران خان نے صدر شوکت مرزیوئیف کو ازبکستان کی 22 ۔ 2021 کے لیے ایس سی او کی چیئر پر مبارکباد دی اور انہیں پاکستان کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات