امریکا کابل ڈرون حملے کو ”غلطی“قراردینا جنگی جرائم کے اعتراف کے مترادف ہے.ماہرین

حملے کی وجہ سے معصوم شہریوں کی ہلاکت پر معافی کافی نہیں ہمیں اس میں ملوث ہر شخص کے احتساب کا مطالبہ کرنا چاہیے.رکن کانگریس الہان عمر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 18 ستمبر 2021 12:58

امریکا کابل ڈرون حملے کو ”غلطی“قراردینا جنگی جرائم کے اعتراف کے مترادف ..
برطانیہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2021 ) دنیا بھر میںامریکہ کی جانب سے افغانستان میں فوجی انخلا سے قبل 10 معصوم شہریوں کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کو ”افسوسناک غلطی“قراردینے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر صارفین نے اس بیان کو امریکا کے جنگی جرائم کا اعتراف قراردیا ہے.

امریکی سینٹرل کمانڈ کی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کابل میں 29 اگست کو امریکی ڈرون حملے میں ایک امدادی تنظیم کا کارکن اور اس کے خاندان کے9 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

ان میں سات بچے شامل تھے اور سب سے کم عمر بچی سمیہ محض دو سال کی تھیں. سوشل میڈیا پر امریکہ کی جانب سے اس غلطی کو تسلیم کرنے کا بیان زیر بحث ہے اس ڈرون حملے میں معصوم شہریوں کی ہلاکت پر بائیڈن انتظامیہ کو شدید تنقید کا بھی سامنا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے بہت دیر بعد کسی ڈرون حملے میں غلطی کو تسلیم کیا ہے جبکہ کچھ کے مطابق محض اس غلطی کو تسلیم کر کے معافی مانگنا ناکافی ہے.

یاد رہے کہ امریکہ نے یہ ڈرون حملہ کابل ایئرپورٹ پر خوفناک دہشت گرد حملے کے بعد کیا تھا 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر دولت اسلامیہ خراساں کے ایک دہشتگرد حملے میں 170 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان میں موجود نہیںامریکی فوج کی یہ ”غلطی “افغانستان میں مستقبل کے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کی درستگی پر سوالات اٹھاتی ہے رپورٹ میںکہا گیاہے کہ خطے میں کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک مثال بنی ہے کہ ڈرون کے ذریعے فوجی کارروائیوں سے خطرات لاحق ہیں.

امریکہ اور اسلامی تعلقات کی کونسل کے نیشنل ڈائریکٹر ایگزیکٹو نہاد عوض نے کہا ہے کہ اس معاملے پر میڈیا نے اگر تحقیقاتی رپورٹس نہ کی ہوتیں تو امریکی فوج اسے جائز قرار دیتی ان کئی ڈرون حملوں کی طرح جن میں افغانستان، پاکستان، یمن اور عراق میں ہزاروں ہلاک ہوئے . امریکی نشریاتی ادارے” سی این این“ کے پروڈیوسر کرٹ ڈیون نے نیو امریکہ نامی ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں پاکستان میں 245 سے 303، یمن میں 124 سے 150، صومالیہ میں 34 سے 121 اور لیبیا میں 637 سے 930 معصوم شہری ہلاک ہوئے.

تاہم امریکہ کے خارجی امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ امریکی فوج نے بہت عرصے بعد کسی ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کی غلطی کو تسلیم کیا ہے اور معافی مانگی ہے مگر اس سے کابل کے اس خاندان یا گذشتہ حملوں کے خاندانوں کو تسلی نہیں ملے گی کانگریس کی رکن الہان عمر نے واضح کیا کہ کابل میں ڈرون حملے کی وجہ سے معصوم شہریوں کی ہلاکت پر معافی کافی نہیں ہمیں اس میں ملوث ہر شخص کے احتساب کا مطالبہ کرنا چاہیے.

انہوں نے امریکی ڈرون پروگرام پر مکمل انکوائری کا بھی مطالبہ کیا ہے امریکی صحافی سودابہ نے لکھا کہ مخلصانہ معذرت اور تعزیت ان 10 معصوم شہریوں کی زندگیوں کو نہیں لوٹا سکے گی یہ انٹیلیجنس کی ناکامی ہے ایک اور مغربی خاتون صحافی نے کہا کہ امریکہ نے کھلے عام جنگی جرائم کا اعتراف کر لیا ہے. ایک ٹوئٹرصارف نے کہاکہ امریکہ نے کابل ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کو تسلیم کر لیا ہے انہوں نے امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کا خون آپ کے ہاتھوں پر ہے امریکی ڈرون حملہ اس وقت ہوا جب امدادی کارکن زمیری احمدی اپنے گھر کے گیراج میں آئے جو ایئرپورٹ سے قریب تین کلومیٹر دور تھا.

امریکی ڈرون حملے کے فوراً بعد ایک دوسرے دھماکے کی بھی آواز سنی گئی تھی امریکی فوج کو لگا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کار میں دھماکہ خیز مواد تھا مگر حالیہ تحقیق میں پتا چلا ہے کہ اس دوسرے دھماکے کی ممکنہ وجہ گیراج میں پڑا گیس سلنڈر تھی ہلاک ہونے والوں میں احمد ناصر شامل ہیں جو امریکی فوج کے لیے مترجم تھے دیگر متاثرین عالمی تنظیموں کے ساتھ ماضی میں ملازمت کر چکے تھے اور کچھ کے پاس امریکہ داخلے کے ویزے بھی تھے.

ایک بیان میں امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے کہا کہ ہمیں اب معلوم ہے کہ زمیری احمدی اور دولت اسلامیہ خراساں میں کوئی تعلق نہیں تھا اس دن ان کی سرگرمیاں کسی خطرے کا باعث نہیں تھیں ہم معذرت خواں ہیں اور ہم ایسی خوفناک غلطی سے سیکھنے کی کوشش کریں گے سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینیتھ مکینزی کے مطابق امریکی انٹیلیجنس نے امدادی تنظیم کے کارکن کی گاڑی کو آٹھ گھنٹے تک ٹریک کیا انہیں لگا کہ اس کا تعلق نام نہاد دولت اسلامیہ خراساں گروپ سے ہے تحقیق سے پتا چلا کہ موصول ہونے والی انٹیلیجنس کا دعویٰ تھا کہ یہ کار دولت اسلامیہ خراساں سے منسلک ہے اور کابل ایئرپورٹ پر ایک مزید حملے کی تیاری کی جا رہی ہے.

انٹیلیجنس کا دعویٰ تھا کہ ڈرون کیمرے میں ایک شخص کو اس کار میں دھماکہ خیز مواد رکھتے دیکھا جاسکتا ہے مگر درحقیقت یہ پانی کے کنٹینر تھے جنرل میکنزی نے اس ڈرون حملے کو” افسوس ناک غلطی‘ ‘قرار دیا اور کہا کہ طالبان اس انٹیلیجنس معلومات میں شامل نہیں تھے جس کی بنیاد پر حملہ کیا گیا تھا.