غریبوں کے بچوں کو دھوکہ دے رہیے ہیں سب۔ کالجز، یونیورسٹیز میں لکھ کر لگائیں، دو سالہ ڈگری کا کوئی فائدہ نہیں،جسٹس صلاح الدین پنہور

سندھ ہائی کورٹ کارواں سال 60اور اگلے سال مزید 100کالجز میں اور 2 سال بعد تمام 350 کالجز میں گریجویشن کا 4 سالہ پروگرام شروع کرنے کا حکم

پیر 20 ستمبر 2021 17:46

غریبوں کے بچوں کو دھوکہ دے رہیے ہیں سب۔ کالجز، یونیورسٹیز میں لکھ کر ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 ستمبر2021ء) سندھ ہائیکورٹ نے اصلاحاتی کمیٹی میں صرف تعلیمی شعبے میں ماہرین کو رکھنے، صوبے بھر کے 60 کالجز میں 4 سالہ گریجویشن پروگرام شروع کرنے، اگلے سال مزید 100 اور آئندہ 2 سال بعد 350 کالجز میں گریجویشن کا 4 سالہ پروگرام شروع کرنے کا حکم دیدیا۔پیرکوسندھ ہائی کورٹ میں جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس عدنان الکریم میمن پر مشتمل بینچ نے صوبے میں تعلیمی اصلاحات سے متعلق سماعت دائردرخواست پرسماعت کی۔

سیکریٹری تعلیم عدالت میں پیش ہوئے۔ گریجویشن ڈگری 16 سال نہ کرنے پر عدالت سیکریٹری تعلیم پر سخت برہم ہوگئی۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے آپ لوگ بچوں سے فراڈ کر رہے ہیں۔ بچوں کو معلوم ہی نہیں،ان کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)

نجی یونیورسٹیز فائونڈیشن کورس کے نام پر فراڈ کر رہی ہیں۔ 14 سالہ ڈگری پر باہر ایڈمیشن ملتا ہے نہ ہی باہر نوکری۔

آخر گریجویشن ڈگری 16 سال کرنے میں قباحت کیا ہے۔ نجی یونیورسٹیز بند ہوتی ہیں تو ہونے دیں، بچوں سے تو فراڈ نہ کریں۔ آپ گریجویشن کا 2 سالہ پروگرام بند کریں۔ گریجویشن کے 4 سالہ پروگرام کو یقینی بنائیں۔ جو یونیورسٹی گریجویشن 4 سال نہیں کرتی، اس کیخلاف ایکشن لیں۔ عدالت نے سیکریٹری سے استفسار کیا کہ دیگر صوبوں نے 16سال کر دیا، آپ کب کریں گے۔

سیکریٹری تعلیم غلام اکبر لغاری نے بتایاکہ اپنی طرف سے کر چکے، کالجز کے کچھ ایشوز ہیں۔ عدالت نے سیکریٹری کالجز سے استفسار کیا صوبے میں کتنے کالجز ہیں۔ سیکریٹری کالجز نے بتایا کہ صوبے میں 350 کالجز ہیں، 340 فعال ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے آپ کو معلوم ہے 40 سال سے بچوں سے فراڈ ہو رہا ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے باہر جانے والے بچے کو داخلہ نہیں ملتا۔

آپ کا کام ہے ہر کالج، یونیورسٹی کو صرف 4 سالہ پروگرام دیں۔ جو گریجویشن 2 سالہ پروگرام کرے، اسے تسلیم ہی نہ کریں۔ آپ نہیں سمجھتے سولہ سال ڈگری سے یونیورسٹی سے دبا ئوکم ہوگا۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریماکس میں کہا کہ یہ 340 کالجز آپ کی یونیورسٹیز بن سکتی ہیں۔ غریبوں کے بچوں کو دھوکہ دے رہیے ہیں سب۔ کالجز، یونیورسٹیز میں لکھ کر لگائیں، دو سالہ ڈگری کا کوئی فائدہ نہیں۔

بچوں کو بتائیں، یہ صرف ایک کاغذ ہے اور کچھ نہیں۔ اس طرح باہر ملک تو کیا پنجاب میں بھی آپ کے بچوں کو داخلہ نہیں ملے گا۔ آپ خود کہتے ہیں سرکاری نوکری بھی سولہ سالہ ڈگری پر دیں گے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس میں کہا کہ یہ تو بچوں سے ظلم ہے۔ انتظامی خرابیوں سے متعلق سیکریٹری تعلیم نے عدالت میں اعتراف کیا۔ سیکریٹری تعلیم غلام اکبر لغاری نے بتایا کہ تسلیم کرتا ہوں صوبے میں تعلیم سے متعلق بہت افسوس ناک صورتحال ہے۔

ہمارے لیے کام نہ کرنے والے ٹیچرز کو نہ نکالنے کا بڑا مسئلہ ہے۔ اساتذہ کو بھی پتہ ہے، ہم نکال سکتے نہیں، اس لیے وہ کام نہیں کرتے۔ ہمارے پاس کام نہ کرنے والے اساتذہ کو نکالنے کا کوئی قانون نہیں۔ ایڈمنسٹریشن کی صورتحال واقعی بہت خراب ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے اس عدالت میں سیکرٹریز بھی ہیں، افسران اور عدالتی اسٹاف بھی۔ جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیئے بدقسمتی سے کسی کا بچہ سرکاری اسکول نہیں جاتا ہوگا۔

جب افسران کے بچے سرکاری اسکول جاتے ہی نہیں تو انہیں ان اسکولوں کی کیا پرواہ ہوگی۔ تنخواہیں ہیں، بڑی بڑی عمارتیں مگر سرکاری اسکولوں میں بچے نہیں۔ 4 ہزار روپے تنخواہ لینے والے نجی اسکول کا ٹیچر خوشی سے پڑھا رہا ہے۔ ایک لاکھ روپے سرکاری تنخواہ لینے والا ٹیچر پڑھانے کو تیار نہیں۔ عدالت نے تعلیمی اصلاحات سے متعلق اعلی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ عدالت نے اصلاحاتی کمیٹی میں صرف تعلیمی شعبے کے ماہرین کو رکھنے اور صوبے بھر کے 60 کالجز میں چار سالہ پروگرام شروع کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے اس سال 60 اور اگلے سال مزید 100 کالجز میں اور 2 سال بعد تمام 350 کالجز میں گریجویشن کا 4 سالہ پروگرام شروع کرنے کا حکم دیدیا۔