امریکا اور فرانس کے درمیان گشیدگی‘کیا اقوام متحدہ اپنا وجود قائم رکھ پائے گا؟

ورلڈٹریڈ آرڈ اور دیگر تجارتی معاہدوں سے چین نے بھرپور فائدہ اٹھایا‘ امریکا نے فری مارکیٹ اور ڈبلیو ٹی او جیسے تجارتی معاہدوں کی صورت میں ترقی پذیریا غیرملکوں کے لیے قبرکھودی تھی مگر ہمارے ساتھ ساتھ امریکا اور اس کے اتحادی بھی اس میں گرگئے ہیں‘عالمی حالات پہلی اور دوسری جنگ عظم سے بدتر ہورہے ہیں ایسے میں ایک بڑی جنگ عالمی طاقتوں کے لیے ناگزیرہوچکی ہے.گروپ ایڈیٹر”اردوپوائنٹ “میاں محمد ندیم کا تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 21 ستمبر 2021 16:21

امریکا اور فرانس کے درمیان گشیدگی‘کیا اقوام متحدہ اپنا وجود قائم رکھ ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 ستمبر ۔2021 ) مغربی اتحادیوں کے درمیان کشیدگی کے باعث اقوام متحدہ کے اجلاس پر سائے منڈلانا شروع ہوگئے ہیں اور فرانس آبدوزوں کا معاہدہ ختم ہونے پر طیش میں ہے تاہم امریکی صدر جو بائیڈن، کورونا کے باعث عائد سفری پابندیوں میں نرمی کرکے یورپی شکایات کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.

فرانسیسی نشریاتی ادارے اور امریکی جریدے کے مطابق جو بائیڈن اپنے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ہنگامہ خیز صدارت کا صفحہ پلٹنے اور ابھرتے ہوئے چین کے مقابلہ کرنے کے لیے اتحادیوں کو اکٹھا کرنے کی امید کے ساتھ نیویارک پہنچے ہیں.

(جاری ہے)

وہ کورونا وبا کے خاتمے کے لیے کارروائی تیز کرنے، موسمیاتی تبدیلی اور افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر عالمی اتحاد کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں تاہم آسٹریلیا کی جانب سے گزشتہ ہفتے فرانس سے اربوں ڈالر مالیت کا آبدوز معاہدہ منسوخ کرنے کے بعد سلامتی کونسل کے مستقل رکن فرانس کے ساتھ کشیدگی مرکزی اہمیت اختیار کر چکی ہے.

آسٹریلیا نے فرانس سے معاہدہ منسوخ کرنے کے بعد امریکا اور برطانیہ سے جوہری آبدوزوں کا سہ فریقی معاہدہ کیا ہے فرانسیسی وزیر خارجہ جین ویس لے ڈرائن نے امریکا پر دھوکا دینے اور آسٹریلیا پر چھرا گھونپنے کا الزام عائد کیا تھا اور اب تک ان کی امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن سے کوئی علیحدہ ملاقات طے نہیں ہے ایک انٹرویو میں لے ڈرائن کا کہنا تھا کہ کئی یورپی ممالک نے فرانس کو بتایا ہے کہ انہیں بھی معاہدہ ختم ہونے پر تشویش ہے تاہم انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا جبکہ اہم یورپی ملک جرمنی نے عوامی سطح پر محتاط رویہ اپنایا.

لے ڈرائن نے ایک فرانسیسی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ یہ صرف فرانس اور آسٹریلیا کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اتحادوں میں اعتماد کو توڑا گیا ہے ادھرامریکی حکام کے مطابق انٹونی بلنکن اورلے ڈرائن کے درمیان 23ستمبر کو ایران کے معاملے پر بات چیت کے دوران گروپ کی صورت میں ملاقات طے ہے تاہم فرانس کے جارحانہ رویے سے لگ رہا ہے کہ یہ ملاقات ملتوی ہوسکتی ہے.

دونوں راہنماﺅں کے درمیان دوطرفہ ملاقات کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کی سینئر عہدیدار اس امکا ن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیڈول میں تبدیلی ہوسکتی ہے. انٹونی بلنکن بہرحال اپنے نئے برطانوی ہم منصب لِز ٹروس اور جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے ملاقاتیں کریں گے اور نومبر میں گلیسگو میں اقوام متحدہ کی کانفرنس سے قبل موسمیاتی تبدیلی پر تبادلہ خیال کریں گے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون ان راہنماﺅں میں شامل ہیں جو کورونا وائرس کے باعث اقوام متحدہ کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے شخصی طور پر اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے.

امریکی حکام نے کہا کہ انٹونی بلنکن نے، جو پیرس میں پلے بڑھنے کے باعث فرانسیسی زبان روانی سے بولتے ہیں نے فرانسیسی سفیر سے ملاقات کرکے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی تھی . تاہم امریکی جریدے کا اپنے ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ فرانس کے وزیرخارجہ امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات کے لیے رضامندی ظاہر کرتے ہیں یا نہیں .

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرانس کی طرح بہت سارے یورپی ممالک واشنگٹن سے ناراض جس کی بنیادی وجہ افغانستان‘عراق اور لیبیا کی جنگ کو قراردیا جارہا ہے اس کے علاوہ واشنگٹن کی جانب سے تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزیوں پر بھی یورپی ممالک کے تحفظات ہیں اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے وجود پر سوال اٹھ رہے ہیں یورپی ممالک چین کو دنیا کی فیکٹری بنانے میں بھی امریکی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں کیونکہ امریکا نے تجارتی معاہدے اور فری مارکیٹ کا تصور چین کو روکنے کے لیے دیا تھا مگر امریکا اپنے اتحایوں سمیت خود اس ”گڑھے“میں گرگیا جس کی وجہ سے آج پوری دنیا کو چین پر انحصار کرنا پڑرہا ہے.

اس سلسلہ میں اردوپوائنٹ کے گروپ ایڈیٹر اور تجزیہ نگار میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ ورلڈٹریڈ آرڈ ہو یا اسی طرزکے دوسرے معاہدے چین نے ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور آج پوری دنیا کو چین پر انحصار کرنا پڑرہا ہے انہوں نے کہا کہ امریکا نے فری مارکیٹ اور ڈبلیو ٹی او جیسے تجارتی معاہدوں کی صورت میں ترقی پذیریا غیرملکوں کے لیے قبرکھودی تھی مگر ہمارے ساتھ ساتھ امریکا اور اس کے اتحادی بھی اس میں گرگئے ہیں.

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ادارے کا خاتمہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی کیونکہ اقوام متحدہ سے پہلے لیگ آف نیشن نامی ادارہ قائم کیا گیا تھا جسے قائم کرنے والوں نے خود ہی ختم کردیا تھا انہوں نے کہا کہ دوسرا پہلوﺅ اقوام متحدہ کا کردار ہے کیونکہ بدقسمتی سے یہ ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے لیے بیشتر فنڈنگ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی کرتے ہیں لہذا اقوام متحدہ کا جھکاﺅ ان کی جانب رہا ہے اقوام متحدہ نے ادارے کی قراردادوں کے خلاف امریکا اور برطانیہ کے عراق پر حملے پر ان سے کوئی جواب طلبی نہیں کی اسی طرح افغانستان کی 20سال جنگ میں بھی اقوام متحدہ نے بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا.

میاں ندیم نے کہا کہ اسلامی دنیا میں بالخصوص جبکہ افریقی اوردیگر غیرترقی یافتہ یا ترقی پذیرممالک کے حوالے سے اقوام متحدہ نے ہمیشہ سردمہری بلکہ جانبدرانہ رویہ اختیار کیا ہے اسی طرح دنیا کی دوسری بڑی کمیونٹی مسلمانوں کے کسی بھی ملک کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنایا گیا ہے اور نہ ہی اہم بین القوامی معاملات میں ان سے رائے مانگی جاتی ہے اس پر مسلمان نوجوانوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اور اس پر اسلامی انتہاپسندی جیسے الزامات جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں.

میاں محمد ندیم نے کہا کہ عالمی سطح پر حالات جنگ کی جانب جارہے ہیں افغانستان میں شکست کے بعد امریکا بدمست زخمی ہاتھی کی طرح ہے جو کوئی نیا ٹارگٹ تلاش کرکے اپنی عبرتناک شکست کا ذمہ دار اسے ٹہرا کر جارخانہ کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے انہوں نے کہا کہ تاریخ کو دہرایا جارہا ہے جس طرح امریکا نے ویت نا م میں اپنی شرمناک شکست کو ذمہ دار قراردیکر کمبوڈیا پر چڑھائی کردی تھی اس وقت پاکستان کمبوڈیا والی پوزیشن پر کھڑا ہے.

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی ایڈونچر کی صورت میں مڈل ایسٹ ‘ جنوبی ایشیاءسے لے کر براعظم افرایقہ تک امریکا اور نیٹو کی تنصیبات محفوظ نہیں رہیں گی پاکستان نہ صرف اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ خطے کا اہم ملک ہونے کے ناطے چین ‘روس اور ترکی سمیت کئی عرب ملک اس کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں. انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوری ماڈل کا احیاءامریکا اور مغرب کے لیے ڈروانا خواب ہے پاکستان کے خلاف کسی جارحیت کی صورت میں اسلام آباد بہت سارے بندھنوں سے آزاد ہوجائے گا دوسرا مغربی تہذیب کی دلدادہ پاکستانی اشرافیہ کے پاس بھی مغربی جمہوری ماڈل کے دفاع کا جوازنہیں رہے گا انہوں نے کہا کہ امریکا اور مغربی کے ممالک کے متعددتھنک ٹینک اس پر اپنی رپورٹس دے چکے ہیں جس میں انہوں نے اسلامی حکومت کے ماڈل کے احیاءکے ”خطرے“سے اپنی حکومتوں کو آگاہ کیا ہے.

ادھر کورونا وبا کے آغاز سے یورپی مسافروں پر پابندی عائد کرنے کے معاملے پر فرانس اور دیگر اتحادیوں کے بڑھتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اس حوالے سے اہم پیشرفت میں بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان تمام مسافروں کے لیے سفری پابندی ختم کردے گی جو مکمل ویکسینیٹڈ ہوں گے اور ٹیسٹنگ اور کانٹیکٹ ٹریسنگ کے مراحل سے گزریں گے. جو بائیڈن نے کوونا وائرس کو شکست دینے کا عزم کرتے ہوئے عہدہ سنبھالا تھا مگر انہیں سیاسی دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ امریکی عوام کے چند حلقے ویکسی نیشن سے انکاری ہیں اور ملک میں ڈیلٹا ویرینٹ کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے.