مودی کی کواڈ اتحاد کے سربراہی اجلاس کے لیے واشنگٹن روانگی

امریکا اور مغربی اتحاد بھارت کو چین کے خلاف استعمال کررہے ہیں.بھارتی دفاعی تجزیہ نگاروں کی مودی سرکار کو تنبیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 22 ستمبر 2021 15:18

مودی کی کواڈ اتحاد کے سربراہی اجلاس کے لیے واشنگٹن روانگی
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2021 ) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی آج امریکہ کے پانچ روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جس میں وہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے علاوہ جاپان، آسٹریلیا، امریکہ اور بھارت کے نئے اتحاد ”کواڈ“کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے. بنیادی طور پر چین کے بڑھتے سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لیے تشکیل دیے گئے اس اتحاد کی میٹنگ کو بھارت میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر پہلے ہی امریکہ پہنچ چکے ہیں جبکہ مودی کے ہمراہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول آج روانہ ہونگے .

مودی 25 ستمبر کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں لیکن اس سے ایک روز قبل 24 ستمبر کو واشنگٹن میں جاپان اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم اور امریکہ کے صدر کے ہمراہ کواڈ اتحاد کے پہلے براہ راست سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے. بھارت کے خارجہ سیکرٹری ہرش وردھن شنگلا نے دلی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ میٹنگ انڈیا کے لیے بہت اہم ہے انہوں نے کہا اس میں انڈو پیسیفک خطے کے چار ممالک شامل ہیں یہ سٹریٹیجک اتحاد ابتدائی مرحلوں سے نکل کر سربراہی اجلاس تک پہنچ چکا ہے۔

(جاری ہے)

اس میں خطے کی سلامتی، سائبر سکیورٹی، باہمی مفاد اور اشتراک پر توجہ مرکوز کی جائے گی.

چین کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ کواڈ دراصل ایک چین مخالف اتحاد ہے اور یہ امریکہ کی سرد جنگ کی ذہنیت کا عکاس ہے لیکن اس طرح کا اتحاد کامیاب نہیں ہو سکتا ڈیرھ برس قل لداخ خطے میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپوں کے بعد بھارت کو بھاری مالی وجانی نقصان اٹھانا پڑا تھا اور ابھی تک دونوں ملکوں کی فوجیں پورے جنگی سازوسامان کے ساتھ ایکچول کنٹرول لائن پر تعینات ہیںدونوں ملکوں کے تعلقات گذشتہ برس کی جھڑپ کے بعد بدستور خراب ہیں بھارت نے چین سے اپنا تجارتی تعلق بہت کم کر دیا ہے کشیدگی سے پہلے چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا تھا.

جنرل ایڈ منسٹریشن کسٹمز آف چائنا کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 میں چین اور بھارت کی باہمی تجارت 93 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی بھارت نے چین سے تجارت پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں. بھارت میں واشنگٹن کی کواڈ میٹنگ کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے اس اجلاس میں بھارت افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر تو الزام تراشیاں کرئے گا ہی لیکن اس میں اصل توجہ چین پر مرکوز ہو گی چین کے حوالے سے بھارت نے گذشتہ برس تک غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی تھی.

مبصرین کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے سبب کم از کم جنوبی ایشیا میں چین کے خلاف کسی بڑے اتحاد کی موجودگی نہیں ہو پائی تھی بھارت پہلی بار اس قدر کھل کر چین کے خلاف سامنے آ رہا ہے مگر کواڈ اتحاد میں شامل دیگر ممالک کتنا کھل کر اس کی طرف آتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے. لداخ میں چین کو جھڑپ سے پہلی والی پوزیشن پر واپس لانے کے لیے بھارت چین سے ایک درجن سے زیادہ بار مذاکرات کر چکا ہے لیکن اس میں ابتدائی کامیابی ملنے کے بعد مزید پیشرفت نہ ہو سکی.

بھارت ایک طرف کواڈ کی طرف قدم بڑھا چکا ہے تو دوسری جانب شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن میں بھی چین اور روس کے ساتھ اشتراک کی باتیں کر رہا ہے بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ اس کی اپنی کشمکش کا عکاس ہے کیونکہ بھارت کو اپنے ”کواڈ“کے اتحادیوں پر اعتماد نہیں بھارتی ماہرین سمجھتے ہیں کواڈمیں امریکا اور مغربی ممالک نے بھارت کو صرف چین کے ساتھ ٹکراﺅ کے لیے شامل کیا ہے یہ مودی حکومت کے لیے بھی ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اب کوئی راستہ نہ ہونے کے سبب اس کا جھکاﺅ واضح طور پر ایک ایسے ممکنہ عسکری اتحاد کی طرف نظر آتا ہے جو چین کے خلاف موثر ثابت ہو تاہم چین اب اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ وہ کواڈ سمیت دیگر مغربی فوجی اتحادیوں کا مقابلہ کرسکے.

بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ارون پرکاش نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت اپنی جنگ خود لڑنے کی تیاریاں کرے لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے دوسرے ملکوں سے اتحاد کے توازن کی ضرورت ہے اگر ضرورت پڑے تو جن ممالک سے ہمارے مفاد مشترک ہوں ان سے ضرور نئی شراکت قائم کی جائے کواڈ کے بارے میں بھارتی دفاعی اموار کے ماہرین مودی حکومت کو باور کرواچکے ہیں مغربی اتحادیوں کے نزدیک بھارت کی حیثیت قربانی کے بکرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے مگر مغربی اتحادیوں خصوصا امریکا سے معاشی چرکے کھانے کے باوجود مودی سرکار کا جھکاﺅ مغربی اتحادیوں کی جانب ہے واضح رہے کہ امریکا کی تین بڑی کمپنیاں فورڈ موٹرز‘جنرل موٹرز اور ہارلے ڈیوسن اپنے یونٹس بند کرکے بھارت سے جاچکی ہیں جبکہ مزید کئی کمپنیاں جانے کی تیاریاں کررہی ہیں امریکی کمپنیوں کے جانے سے مودی سرکار پر بھارت میں کڑی تنقید کی جارہی ہے.