سپریم کورٹ نے نالہ متاثرین کی بحالی کے لیے ایک سال کا وقت دے دیا

وزیر اعلی سندھ 2 ہفتوں میں ابتدائی عمل درآمد رپورٹ طلب،عدالت نے وزیر اعلی سندھ کوذاتی طور پر فیصلے پر عمل درآمد یقین بنانے کا حکم دیدیا شیم آن سندھ حکومت، سب پیسے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ غیر قانونی قبضے، سڑکیں بدحال، کراچی میں کچھ نہیں،چیف جسٹس کے دوران سماعت ریمارکس 6 ہزار سے زائد گھر بنائے جائیں گے۔ بحریہ ٹان واجبات سے رقم ملے گی تو ہم منصوبے پر کام شروع کردیں گے،ایڈوکیٹ جنرل سندھ مطلب آپ کی گورنمنٹ کے پاس پیسے نہیں تو گورنمنٹ فنکشنل نہیں۔ عوام کے لیے پیسے نہیں، باقی سارے امور چلا رہے ہیں،چیف جسٹس آف پاکستان

بدھ 22 ستمبر 2021 16:51

سپریم کورٹ نے نالہ متاثرین کی بحالی کے لیے ایک سال کا وقت دے دیا
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2021ء) سپریم کورٹ نے گجر، محمود آباد اور اورنگی نالے متاثرین کی بحالی کے لیئے ایک سال کا وقت دیدتے ہوئے وزیر اعلی سندھ 2 ہفتوں میں ابتدائی عمل درآمد رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے وزیر اعلی سندھ کوذاتی طور پر فیصلے پر عمل درآمد یقین بنانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے شیم آن سندھ حکومت، سب پیسے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

غیر قانونی قبضے، سڑکیں بدحال، کراچی میں کچھ نہیں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو گجر نالے سمیت دیگر نالوں پر تجاوزات سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے استفسار کیا گجر نالہ پر پیش رفت رپورٹ کہاں ہیں۔

ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ بورڈ آف ریونیو کی جانب سے رپورٹ جمع کرائی ہے۔ 258 ایکٹر اراضی پر متاثرین کو متبادل زمین مختص کردی ہے۔ 6 ہزار سے زائد گھر بنائے جائیں گے۔ بحریہ ٹان واجبات سے رقم ملے گی تو ہم منصوبے پر کام شروع کردیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے یہ تو آپ مشروط کر رہے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ سندھ حکومت کے پاس بجٹ کی کمی ہے۔

10 ارب روپے اگر سپریم کورٹ ریلیز کردے تو ہم کام شروع کر دیتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ سلمان طالب الدین نے موقف اپنایا کہ بحریہ ٹان کے واجبات سندھ حکومت ہی کے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے طے کرنا ہے کہ وہ پیسے کہاں خرچ کرنا ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے آپ نے ان پیسوں پر امید لگا لی۔

کیا آپ کے پاس پیسے نہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے مطلب آپ کی گورنمنٹ کے پاس پیسے نہیں تو گورنمنٹ فنکشنل نہیں۔ عوام کے لیے پیسے نہیں، باقی سارے امور چلا رہے ہیں۔ وزرا اور باقی سب کے لیے فنڈز ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ یہ ایک نیا شہر بنے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ اس پیسے سے امید لگاے بیٹھے ہیں جو ملے نہیں۔

ابھی پیسے آئے نہیں، سارا جہاں پیسے لینے آگیا۔ ایڈوکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ 462 ارب سے 70 ارب جمع ہو چکے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے جب گاڑیاں خریدنی ہوتی ہیں تو پیسے آجاتے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ وہ پابندی بھی سپریم کورٹ نے لگائی۔ اگر بحریہ کے پیسے نہ آتے تو پھر کیا کرتے۔

اگر زلزلہ، سیلاب جائے تو پھر کیا کریں گے۔ اگر کوئی آفت جائے تو کیا ایک سال تک بجٹ کا انتظار کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جب تک متاثرین کو گھر نہیں دیتے، وزیراعلی اور گورنر ہاس الاٹ کر دیتے ہیں۔ لوگوں کو کہتے ہیں کہ وہ وزیراعلی، گورنر ہاس کے باہر ٹینٹ لگالیں۔سندھ حکومت میں کچھ نہیں ہو رہا۔ سردرد صورتحال ہے سندھ میں۔ ورلڈ بینک کے کتنے منصوبے ہیں مگر کچھ نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے بتائیں، جنہوں نے زمینیں الاٹ کیں، ان کے خلاف کیا ایکشن لیا۔ ایڈوکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ یہ تو 40 سال پرانا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا کہ آپ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دے رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے آپ کی ترجیحات اصل میں کچھ اور ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جو پیسے سپریم کورٹ نے وصول کرائے آپ نے نظر رکھ لی۔

وہ پیسے آپ کے ہرگز نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہم نے طے کرنا ہے کہ اس پیسے کا کیا کرنا ہے۔ آپ 6 ماہ سے بحریہ واجبات پر نظر رکھے بیٹھے ہیں۔ آپ کا یہ طریقہ کار غلط ہے ایڈووکیٹ جنرل صاحب۔ سندھ حکومت کا کتنے ارب کا بجٹ ہے۔ کھربوں روپے کے بجٹ سے آپ کے پاس 10 ارب نہیں۔ جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا وہ شہر ہے شہر اباد کرلیتے ہیں۔ آپ سندھ حکومت ہیں، ایڈووکیٹ جنرل صاحب۔

معزرت کے ساتھ یہ مشکل نہیں، ول کا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ جس طرح بیان دے رہے ہیں یہ درست طریقہ کار نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب ذمہ داری آپ کی تھی، سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہی ہے۔ چیف جسڑس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہم سے بارگینیگ کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ میں کہا کہ آپ ہم سے بارگینیگ نہ کریں۔

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے موقف دیا بحریہ ٹان کا پیسہ سندھ کے عوام پر لگنا چاہیے۔ وفاقی حکومت گجر نالہ متاثرین کے لیے راستہ نکالنے کو تیار ہے۔ مگر بحریہ ٹان کے واجبات کا پیسہ طریقے سے لگنا چاہیے۔ دونوں حکومتوں کو ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پورا کراچی گند میں بھرا ہوا ہے۔ کیا یہ کراچی شہر ہے۔ یہ تو گاربیج دیکھائی دیتا ہے۔

کوئی نہیں دیکھنے والا۔ حکمران طبقے کو اس شہر کی کوئی پروا نہیں۔ گڑ ابل رہے ہیں، تھوڑی سے بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے۔ شہر اس طرح چلایا جاتا ہے۔ ایک انچ کا بھی کام نہیں ہوا کراچی میں۔ یہ ہے سندھ حکومت، کہتے ہیں پیسے نہیں۔ کھربوں روپے کی باہر سے مدد آتی ہے، کیا کرتے ہیں کچھ پتہ نہیں۔ غیر قانونی قبضے، سٹرکیں بدحال، کچھ نہیں کراچی میں۔

مکمل بینک کرپٹ کی جانب کھڑی ہے سندھ حکومت۔ اور اس سب کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ شیم آن سندھ حکومت۔ معزرت کے ساتھ اے جی صاحب، یہ کوئی طریقہ نہیں۔ جس بلڈنگ کو اٹھا اس کا برا حال ہے۔ سٹرکیں ٹوٹیں، بچے مریں، کچھ بھی ہو، یہ کچھ نہیں کرنے والے۔ یہی حال سندھ حکومت کا اور یہی حال وفاقی حکومت کا بھی ہے۔ سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کام تو کریں۔ اگر لوگوں کو سروس نہیں دے سکتے تو کیا فائدہ۔ سندھ حکومت کہتی ہے ہمارے پاس بحالی کے پیسے نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ اطمینان بخش جواب نہ دے سکے۔ متاثرین کی بحالی سندھ حکومت کا کام ہے۔ سپریم کورٹ مے گجر نالہ، اورنگی نالہ، محمود آباد متاثرین بحالی کیس میں احکامات جاری کرتے ہوئے کا ہے کہ سندھ حکومت دستیاب وسائل سے بحالی کا کام کرے۔

سپریم کورٹ نے وزیراعلی سندھ کو براہ راست حکم جاری کردیا۔ عدالت عظمی مے حکم دیا کہ وزیراعلی سندھ ذاتی طور اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ وزیراعلی سندھ متاثرین بحالی کی رقم ارینج کریں۔سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو بحالی کے لیے ایک سال کا وقت دے دیا۔ عدالت عظمی نے وزیراعلی سندھ سے 2 ہفتے میں ابتدائی عمل درآمد رپورٹ بھی طلب کرلی۔