سوشل میڈیا کے خوبصورتی کے معیار پر اثرات

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 23 ستمبر 2021 15:40

سوشل میڈیا کے خوبصورتی کے معیار پر اثرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 ستمبر 2021ء) برسوں سے لوگ خوبصورتی کے مختلف معیار بناتے اور رد کرتے آ رہے ہیں۔ ہر دور میں خوبصورتی کے معنی مختلف رہے ہیں۔ جیسا کہ میجی دور میں جاپانی خواتین میں خوبصورتی کا معیار کالے دانت ہوا کرتے تھے، جن کو فولاد کے پانی کی ڈائی کی مدد سے رنگا جاتا تھا۔ پھر اٹھارہویں صدی میں یورپ میں سفید سیسے اور سرکے کی مدد سے فیس پاؤڈر بنایا جاتا تھا تاکہ جلد بالکل سفید یا پیلی نظر آئے۔

یہ امارت اور استحقاق کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ موجودہ دور میں بھی میانمار کے کچھ قبائل میں لمبی گردن خوبصورتی کا معیار سمجھی جاتی ہے، جس کے لیے گردن میں مخصوص کڑے ڈالے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا آجکل کے دور کی اہم ضرورت بلکہ اہم جزو بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

اس ڈیجیٹل دور نے ہم پر نئی دنیاؤں کے در کھول دیے ہیں۔

صبح اٹھتے ہی ہم میں سے زیادہ تر لوگ سب سے پہلا کام فون پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کرنے کا کرتے ہیں اور برانڈز یا مختلف کاروباری اشتہارات دیکھتے ہیں۔

ان تمام اشتہارات میں ماڈلز اور مشہور شخصیات متاثر کن دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان نسل اسی کو معیار سمجھتے ہوئے ان جیسے بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور نتیجتاً صحت کے اور نفسیاتی مسائل کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال رنگ گورا کرنے والی کریمیں، فوڈ سپلیمنٹس، وزن کم کرنے کی ادویات، سٹیرائڈز وغیرہ ہیں، جن کی وجہ سے جلد، گردے اور جگر کے مسائل ایک ہنستی کھیلتی زندگی کو موت تک لے جاتے ہیں۔

ہمارے لیے ان اشتہارات کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ان اشتہارات کو فلٹرز اور کیمرہ ورک کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے۔ جاذب نظر دکھائی دینے کے لیے بہت سے لوگ پلاسٹک سرجری اور ورزش کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی فلسفہ آدرشیت کا جھوٹ ہے۔ ہم ان سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کو اس ڈگر پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کوشش میں ہم خوبصورتی کا غیر حقیقی معیار مقرر کرلیتے ہیں۔

جب ہم اس معیار تک پہنچ نہیں پاتے تو بہت ساری نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، جن میں سب سے اہم خود اعتمادی کی کمی اور ڈیس مورفیا (کسی جسمانی عضو کو اچھا نہ سمجھتے ہوئے بدلنے کی خواہش کرنا) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی عادات کی خرابی جسے اینوریکسیا نرووسا (جس میں خظرناک حد تک کم کھایا جاتا ہے تاکہ وزن کم ہو جائے)، بلیمیا نرووسا(نفسیاتی عارضہ جس میں حد سے زیادہ کھایا جاتا ہے) یا بائنج (خود کو بے تحاشا کھانے سے روک نہ پانا) کا شکار ہیں۔

نیشنل ایٹنگ ڈس آڈر ایسوسی ایشن امریکا کے محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی تعداد 70 ملین سے زیادہ ہے۔

نوجوان مردوزن کو یہ سکھانا ناقابل یقین حد تک اہم ہے کہ سوشل میڈیا حقیقی زندگی نہیں ہے۔ تمام نوجوان نسل سوشل میڈیا پر اپنی شخصی انفرادیت قائم رکھنے کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر جو کچھ دیکھتے ہیں ان کے مطابق وہی اصل معیار ہے، جس کو قائم رکھنا اور قائم کرنا انتہائی مشکل ہے۔

یہ مقرر کردہ معیار حقیقت میں دھول کے سوا کچھ نہیں ہے۔

لڑکیاں سوشل میڈیا کے اس پہلو کا سامنا کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ دوسروں کے لیے قابل قبول ہونے کے لیے انہیں کس طرح نظر آنا چاہیے۔ چھوٹی عمر میں ہی وہ دوسروں سے تقابل کرنا شروع کردیتی ہیں اور اکثر ڈیموس فیا کا شکار ہو کراپنے اعضا اور ظاہری وجود میں تبدیلیاں چاہتی ہیں۔ ایسے میں زیادہ وقت وہ سوشل میڈیا پر ان پوسٹس سے تقابل کرتے گزار دیتی ہیں، جو صرف 'مثالی خوبصورتی‘ کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس سب کے ساتھ، یہ ضروری ہے کہ لڑکیوں کو کھانے کی خرابی اور ذہنی عوارض کی دیگر اقسام کی تشخیص کی پہچان کروائی جائے۔ جس میں سوشل میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن نہیں کرتا ہے۔

دوسری جانب لڑکے جسمانی فٹنس اور پٹھوں کے واضح کرنے میں زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ اس مثالی جسامت کو حاصل کرنے کے لیے غیر صحت مند سپلیمنٹس اور ڈائٹ اکثر جسمانی عوارض کا باعث بن جاتی ہے۔

سوشل میڈیا خوبصورتی کے معیار کے لیے افراد کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ یہ انہیں باور کرواتا ہےکہ ان کی معاشرے میں قبولیت انہی خوبصورتی کے معیار کی مرہون منت ہے۔ اگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا جائزہ لیا جائے تو یہ غیر حقیقت پسندانہ رجحانات مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ جو آپ کی رائے آپ کے بارے میں مکمل تبدیل کرسکتے ہیں اور مستقبل میں ناقابل یقین نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس سے ڈپیریشن، اضطراب اور خود اعتمادی کی کمی انتہائی بڑھ جائے گی۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم حقیقت کو سراب سے کیسے ممتاز کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس تاریک پہلو سے اپنی حفاظت کیسے کرتے ہیں؟ کیونکہ مثبت پہلو بہرحال موجود ہیں۔