انسانیت مذہب کی تفریق سے بالاتر; مسلمان اور ہندو خواتین کا ایک دوسرے کے خاوندوں کے لیے گردے کا عطیہ

سشما اونیال اور سلطانہ علی نے ایک دوسرے کے خاوندوں کی زندگیاں بچا کر انسانیت کی ایک نئی مثال قائم کر دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 28 ستمبر 2021 14:56

انسانیت مذہب کی تفریق سے بالاتر; مسلمان اور ہندو خواتین کا ایک دوسرے ..
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 ستمبر 2021ء) : یوں تو بھارت میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر مسلمانوں پر تشدد سے لے کر ان کی نسل کشی تک جاتی ہے جبکہ انتہا پسند ہندو بھی مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں کرتے اور کسی نہ کسی بہانے سے مسلم کمیونٹی کو پریشان کرتے رہتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی ابھی ایسے لوگ زندہ ہیں جو مذہبی ہم آہنگی پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں سے اچھا سلوک روا رکھنے اور انسانیت کے جذبے کو ترجیح دینے والے لوگ ابھی بھی موجود ہیں جن کے لیے مختلف مذاہب سے زیادہ انسانیت کا تعلق زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال حال ہی میں دیکھنے میں آئی جہاں بھارت میں سشما اونیال اور سلطانہ علی نے ایک دوسرے کے خاوندوں کی زندگیاں بچانے کے لیے گردوں کا عطیہ دے دیا۔

(جاری ہے)

اس کیس کی منفرد بات یہ ہے کہ سلطانہ علی مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ سشما اونیال کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ سعودی عرب کے مؤقر انگریزی اخبار عرب نیوز کے مطابق گردوں کی یہ پیوند کاری بھارتی ریاست اتر کھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں انجام پائی۔ اخبار کے مطابق سشما کو اپنے 51 سالہ خاوند وقاص اونیال کے لیے گردے کے ڈونر کی تلاش تھی جب کہ سلطانہ علی اپنے 52 سالہ شوہر اشرف علی کے لیے گردوں کا عطیہ کرنے والا ڈھونڈ رہی تھیں۔

دونوں افراد 2019ء سے گردہ فیل ہونے کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ اس سلسلے میں دونوں خاندانوں کی جانب سے متعلقہ اداروں میں درخواستیں جمع کروائی گئی تھیں اور رابطے بھی کیے گئے تھے لیکن کسی طرح کی کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔ سشما اور سلطانہ کے کیسز میں ایک یہ بھی مسئلہ تھا کہ وہ دونوں اپنے خاوندوں کو گردوں کا عطیہ نہیں دے سکتی تھیں کیونکہ طبی طور پر موافق نہیں تھے۔

اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر شہباز احمد نے ادا کیا جو دونوں مریضوں کے کیسز دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر وہ ایک دوسرے کے خاوندوں کو گردے عطیہ کردیں تو ان کی مشکل حل ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر شہباز احمد کے مطابق یہ مشورہ دیتے ہوئے انہیں یہ خیال بھی تھا کہ مذہب اختلاف آڑے آسکتا ہے لیکن بحیثیت ڈاکٹر انہوں ںے بات کی اور دونوں خاندانوں کی ملاقات کروا دی جس کے بعد مختلف ٹیسٹس سے معلوم ہوا کہ ان کا خیال درست ہے یعنی دونوں خواتین ایک دوسرے کے خاوندوں کو گردہ عطیہ کرکے جان بچا سکتی ہیں۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سوچ بچار کے بعد دونوں خاندان اس پیوند کاری پر راضی ہو گئے لیکن پھر کورونا کی لہر نے منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچنے دیا مگر اب 4 ستمبر کو یہ پیوند کاری مکمل ہو گئی جس میں تقریباً 10 گھنٹے لگے۔ ڈاکٹر شہباز احمد کے مطابق سرجری کے بعد دونوں خاندانوں کے درمیان ایک رشتہ بھی قائم ہو گیا ہے اور جو کچھ ہوا وہ قانونی بھی ہے۔

واضح رہے کہ انسانی اعضا کی پیوند کاری کے حوالے سے بھارتی قانون کے تحت اس کی اجازت اس صورت میں ہوتی ہے کہ جب ڈونر قریبی عزیز ہو۔ بھارتی قانون کے مطابق اگر قریبی عزیز ڈونر نہ ہو تو خون کے رشتہ داروں کے علاوہ بھی دیگر لوگ انسانی اعضا عطیہ کرسکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 20 لاکھ افراد گردے کی پیوند کاری کے منتظر ہیں لیکن چونکہ ڈونرز نہیں ہیں اس لیے مریض اپنی اس تکلیف سے نجات نہیں پا رہے۔

متعلقہ عنوان :