ایرانی جوہری پروگرام، امریکا اور اسرائیل کے بیچ پلان بی پر خفیہ بات چیت

اگر ایران جوہری معاہدے کی طرف واپس نہ آیا تو ایسی صورت میں کیا کِیا جانا چاہیی اجلاس میں بحث

منگل 28 ستمبر 2021 16:03

تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 ستمبر2021ء) اسرائیلی اخبار نے کہاہے کہ رواں ماہ کے دوران میں امریکی اور اسرائیلی قومی سلامتی کے ذمے داران کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں یہ بات زیر بحث آئی کہ اگر ایران جوہری معاہدے کی طرف واپس نہ آیا تو ایسی صورت میں کیا کِیا جانا چاہیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق مذکورہ خفیہ بات چیت میں غیر مقررہ پلان بی پر توجہ مرکوز رہی۔

اسرائیلی ذمے داران کے حوالے سے بتایا گیا کہ رواں سال جون میں نفتالی بینیٹ اور نئی اسرائیلی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خصوصی دو طرفہ تزویراتی گروپ کا یہ پہلا اجلاس تھا۔ اس گروپ کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے دونوں ممالک کے بیچ تعاون ہے۔امریکی ویب سائٹ بھی تصدیق کر چکی ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان تقریبا دو ہفتے قبل خفیہ بات چیت ہوئی۔

(جاری ہے)

بات چیت میں پلان بی زیر بحث آیا جو جوہری مذاکرات کے دوبارہ شروع نہ ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر نافذ ہو گا۔امریکی ویب سائٹ کے مطابق مزکورہ خصوصی اجلاس وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہوا۔ اجلاس کی قیادت امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون اور ان کے اسرائیلی ہم منصب یال ہولاتا نے کی۔دوسری جانب اسرائیلی بحریہ کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے کمانڈر ایلی شارویت نے انکشاف کیا کہ ان کے ملک نے بحر احمر میں اپنی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر دیا ہے۔

اس کا مقصد اسرائیلی بحری کارگو کے لیے بڑھتے ہوئے ایرانی خطرات کا سامنا کرنا ہے۔امریکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں شارویت نے کہا کہ اسرائیل کے اقتصادی اور سیکورٹی مفادات کے تحفظ کے واسطے اسرائیلی بحریہ ضرورت پڑنے پر کہیں بھی ضرب لگانے کی قدرت رکھتی ہے۔گذشتہ عرصے کے دوران میں مغربی رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا کہ 2019 سے تہران اور تل ابیب کے درمیان تیزی سے بڑھتی غیر علانیہ بحری جنگ کے دوران میں تقریبا 20 بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔