آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں دی انٹلیکچولز فورم کی جانب سے "افغانستان کا پیچیدہ معاملہ اور اس کے اثرات" پر سیمینار کا انعقاد

Umer Jamshaid عمر جمشید پیر 11 اکتوبر 2021 12:43

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں دی انٹلیکچولز فورم کی جانب سے "افغانستان ..
 کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 11 اکتوبر2021ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں دی انٹلیکچولز فورم کی جانب سے "افغانستان کا پیچیدہ معاملہ اور اس کے اثرات" پر سیمینار کا انعقادجون ایلیا لان میں کیا گیا، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما اورسابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ بیشک یہ درست ہے کہ اپنے لوگوں کا خیال کسی بھی ریاست کیلئے اولین ہے لیکن کچھ تاریخی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ چاہ کر بھی پیچھا نہیں چھرا سکتے۔


آج لگتا تو ہے کہ افغان جنگ ختم ہوگئی لیکن کیا وہ واقعی ختم ہوچکی ہے؟۔آپ نے دیکھا ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان کا ٹیک اوور ہوا پاکستان میں سلیپنگ سیلز ایکٹو ہوگئے ہیں۔امریکہ سمجھتا ہے کہ ان کی شکست میں پاکستان کا ہاتھ ہے لیکن اگر امریکہ کو بنیادی وجہ ڈھونڈنی ہے تو کلنٹن کے انٹرویو سے تحقیقات شروع کریں۔

(جاری ہے)

جب مہاجرین یہاں آئے تو ان کو روکنے کے بجائے بالخصوص سندھ میں آباد کیا اور آج اگر ہم سمجھتے ہیں کہ وہ واپس چلے جائینگے تو ہم خام خیالی میں ہیں۔سابق وزیر اعلی بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا افغانستان سے امریکی قوتوں کے جانے کے بعد امن ہوگا؟۔

افغانی معاشرہ خود پیچیدہ معاشرہ ہے۔روس نے کوشش کی پھر امریکہ نے کوشش کی مگر افغان کو سمجھنے میں مشکلات ہیں۔

یقیناً ان حالات کے اثرات ہم پر پڑینگے۔افغان معاشرہ اس وقت قبائلی نظام میں زندگی گزار رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں جمہوری اور وفاقی نظام ہوگا؟ کیا میڈیا آزاد ہوگا۔آج ہم سب کو ناراض کر رہے ہی۔ صرف چائنا سے اثرورسوخ بنائے ہوئے ہیں۔اس کا ہم پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال نے کہا کہ ہماری نظر میں افغانستان کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی.جو لوگ جیت اور ہار کے شادیانے بجا رہے ہیں وہ حالات سے واقف نہیں ہیں۔

روس کی طرح کوئی ملک ٹوٹا نہیں ہے سب اپنی جگہ پر موجود ہیں۔49 ممالک جب اپنا تجزیہ کرینگے تو سوچیں گے کہ انہیں شرمندگی کیوں اٹھانی پڑی ہے۔

یہ جنگ افغانستان سے پاکستان شفٹ نہ ہو۔ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ یہ جو عام تاثر ہے افغانستان کے بارے میں کہ ان پر ظلم ہورہا ہے، یہ ایک حد تک درست ہے۔پڑوسی ہونے کے ناتے یہ سب ہمارے بھائی اور بہن ہیں۔

افغانستان کو ان مسائل کا سامنا کبھی نہ کرنا پڑتا اگر وہ مذمت نہ کرتے برداشت کرتے۔جو لوگ افغانستان کی تاریخ پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہاں کبھی کوئی پاپولر حکومت رہی ہی نہیں ہے، گھرانوں کی رہی ہے۔افغانستان میں جو پہلا انقلاب آیا وہ بنیادی طور پر اندرونی خانہ تھا۔غیر ملکی قوتوں کی اس میں مداخلت نہیں تھی۔مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ ہماری زبان۔

ثقافت۔معشیت سب خطرے میں ہیں۔ہماری خارجہ پالیسی سب سے زیادہ زیرِ بحث رہتی ہے۔ہماری خارجہ پالیسی ہمیں بہت کمزور دکھائی دیتی ہے ہمارے پڑوسی ممالک ہم سے خوش نہیں ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے۔افغانستان کے جو بھی مسائل ہوں اس نے پھر بھی پاکستان کو اپنا دوست تصور نہیں کیا.امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ہم ایک نیا دور شروع کرنے جارہے ہیں جس میں مختلف بلاکس والی پالیسیز نہیں ہونگی۔

اشفاق میمن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ امریکہ کا وہاں رہنے کے بعد ایسا کیوں ہوا کہ ڈھائی سال کے عرصے میں ہی انہیں وہاں سے جانا پڑا۔ہر جگہ طالبان پہلے پہنچتے تھے اور حکومتوں کو خبر تک نہیں ہوتی تھی۔یہ کچھ باتیں ہیں جو مسائل کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔

افغانستان آج وہ نہیں ہے جو بیس سال پہلے تھا۔

ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ افغانستان کس طرف جارہا ہے۔ڈاکٹر پروفیسر محبوب شیخ نے کہا کہ دنیا بھر کے مسائل پر سب بات کرینگے میں سندھ پر بات کروں گا۔حکومت سندھ میں یا پاکستان میں کسی کی بھی ہو، لیکن ہمارے جو وسائل ہیں وہ محدود ہیں۔چاہیے پانی کے ہوں یا اسکول، کالج ۔افغانستان میں جو بھی حالات ہوں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ مہاجر وہاں سے جب بھی نکلیں مزید ان میں سے ایک بھی کراچی نہ آئے۔

حکومت کو چاہیے کہ انسانی ہمدردی کے طور پر افغانیوں کی مدد کیلئے بارڈرز پر خیمے بنائے جائیں۔ہمارے پاس جو تیس لاکھ افغانی مہاجرین ہیں ان کو بھی اب واپس جانا چاہیے۔ ایوب شیخ نے کہا کہ افغانستان کی تاریخ جو ہمارے سامنے موجود ہے وہ تقریبا 5000 سال پرانی ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت ہو انہیں نہیں پتا کہ افغانستان کا یا کسی بھی ملک کا حوالہ ہو تو کیا کرنا چاہیے۔

تاریخ گواہ ہے کہ راتوں رات ہزاروں لوگ کود آتے ہیں اور ملک کی ڈیموگرافی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔عبدالوہاب بلوچ ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہمارے ساتھ دو بڑے ایشوز کشمیر اور افغانستان ہے۔کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔جو کچھ اج افغانستان برداشت کررہا ہے پاکستان بھی برداشت کرہا ہے۔افغانستان حکومت کوکسی نے بھی ابھی تک نہیں مانا۔

افغانیوں کو انکے حقوق نہیں ملے تو یہ سب ہمارے سمیت دنیا کے لئے بڑا خطرہ ہے۔چیئر پرسن انٹلیکچوئلز فارم مسعود نورانی نے کہا کہ میں آپ سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں مجھے یقین ہے کہ ایسی محفلیں روز نہیں ہوا کرتیں۔ اس کامیابی کا سہرا انٹیلیکچوئل فارم کے سَر جاتا ہے۔ہم سب ایک ہی ہیں سب مالکان ہیں سب وارث ہیں کسی کو دشمن نہ کہا جائے۔افغانستان کا جو مسئلہ ہے، ہم نے ہر پہلو سے آج اس پر بات کی ہے۔