کابل ڈرون حملہ: ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے زر تلافی کا امریکی وعدہ

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 16 اکتوبر 2021 13:40

کابل ڈرون حملہ: ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے زر تلافی کا امریکی وعدہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اکتوبر 2021ء) محکمہ دفاع پینٹاگون نے کابل میں کیے گئے ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کے لواحقین کو مالی معاوضے کی ادائیگی کا یہ وعدہ 15 اکتوبر جمعے کے روز کیا۔ ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ اس سال اگست میں کیے گئے اس امریکی ڈرون حملے میں سات بچوں سمیت کم از کم دس افغان سویلین باشندے ہلاک ہو گئے تھے۔

اگست میں جب امریکی فوجی دستوں کا افغانستان سے حتمی انخلاء اپنے آخری مراحل میں تھا اور کابل ایئر پورٹ پر افراتفری کا ماحول تھا، تو اس وقت امریکا نے داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ نامی دہشت گرد تنظیم کے بعض ایسے شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے یہ ڈرون حملہ کیا تھا، جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ کابل ایئر پورٹ پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

اس حملے میں لیکن داعش کے عسکریت پسندوں کے بجائے دس عام شہری مارے گئے تھے۔

امریکا نے اب ہلاک شدگان کے پسماندگان کو معاوضہ دینے کی بات تو کی ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ مالی تلافی کی رقم کتنی ہو سکتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں حکام یہ معلوم کرنے کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں کہ آیا ہلاک شدگان کے لواحقین میں سے اگر کوئی امریکا منتقل ہونے میں دلچسپی رکھتا ہے، تو اس کی کیا مدد کی جا سکتی ہے۔

پینٹاگون نے کہا ہے اس امریکی حملے میں غلطی کی تصدیق ہو جانے کے بعد امریکا نے متاثرہ خاندانوں کی مدد کا وعدہ کیا تھا، جس میں زر تلافی کی ادائیگی بھی شامل ہے۔

ایک المناک غلطی

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کی پالیسیوں کی نگران نائب وزیر دفاع کولن کَیہل نے اس سلسلے میں ایک غیر سرکاری ادارے ’نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل‘ (این ای آئی) کے سربراہ ڈاکٹر اسٹیون کوون سے ایک ورچوئل ملاقات بھی کی۔

اسی تنظیم نے ضمیری احمدی کو افغانستان میں اپنی سروسز کے لیے ملازمت پر رکھا ہوا تھا، جنہیں امریکی خفیہ ادارے نے غلطی سے داعش کے ایک شدت پسند کے طور پر شناخت کر کے ڈورن حملے کا نشانہ بنایا تھا۔

جان کربی کے مطابق اسٹیون کوون نے کولن کَیہل کو بتایا کہ ڈرون حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی ضمیری احمدی ہی چلا رہے تھے اور انہوں نے افغانستان میں کم خوراکی کے سبب موت کے خطرے سے دوچار بہت سے انسانوں کی مدد کرتے ہوئے ان کی جانیں بچائی تھیں۔

ضمیری احمدی کے ایک 22 سالہ بھتیجے نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ اس معاملے میں دور بیٹھ کر معذرت کر لینا ہی کافی نہیں۔ انہوں نے کابل میں اپنے گھر سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ امریکی حکام کو ’’یہاں آ کر ہم سے رو برو معافی مانگنا چاہیے تھی۔‘‘

جان کربی نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈاکٹر کَیہل نے ’’اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ یہ ڈرون حملہ ایک اسٹریٹیجک غلطی تھا۔

‘‘ ان کے مطابق احمدی اور جو دیگر افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے، وہ بےگناہ تھے اور ان کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

امریکی فوجی حکام نے بھی گزشتہ ماہ یہ اعتراف کر لیا تھا کہ اس فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے احمدی اور دیگر نو افراد کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اگست میں کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر داعش کے ایک خود کش حملہ آور نے ایک بم حملے میں 13 امریکی فوجیوں اور درجنوں افغان شہریوں سمیت بیسیوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور اس حملے کے تین دن بعد امریکا نے وہ ڈرون حملہ کیا تھا، جو دس شہری ہلاکتوں کا باعث بنا اور اسٹریٹیجک غلطی ثابت ہوا تھا۔

ص ز / م م (روئٹرز، اے پی)