Live Updates

وزارت خزانہ کا پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں 10 روپے 49 پیسے اضافے کے باوجود خطے کے ممالک کے مقابلے میں تیل سستا ہونے کی گردان

پاکستان میں مہنگائی کی شرح خطے کے ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے‘روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدربھی سب سے کم ہے فی کس اوسط آمدنی میں بنگلہ دیش 2227 ڈالر کے ساتھ پہلے بھارت1961 ڈالرکے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے ‘پاکستان میں فی کس آمدن 1279 ڈالر ہے جو خطے میں سب سے کم ہے.ایڈیٹراردوپوائنٹ”میاں محمد ندیم کا تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 16 اکتوبر 2021 16:01

وزارت خزانہ کا پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں 10 روپے 49 پیسے اضافے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اکتوبر ۔2021 ) ترجمان وزارت خزانہ نے ایک بار پھر مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑکا ہے کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں 10 روپے 49 پیسے اضافے کے باوجود خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ملک میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہیں ترجمان کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہواہے.

(جاری ہے)

ترجمان نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں خام آئل کی قیمتوں اضافے نے دنیا میں بحران پیدا کر دیا حکومت صرف 2روپے پیٹرولیم لیوی عوام سے وصول کر رہی ہے انہوں نے اعتراف کیا کہ روپے کی قدر میں گراوٹ بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے اوگرا کی سفارشات پر قیمتیں بڑھائیںاوگرا کی طرف سے پیٹرول کی قیمت میں 5روپے اضافے کی سفارش کی خبردرست نہیں.

ادھر قیمتوں کے موازنے پرماہرین نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں حکومتیں تیل کی مصنوعات اور دیگر اشیاءکی قیمتوں کا موازانہ تو دوسرے ملکوں سے کرتی ہیں مگر ان کی معیشت‘کرنسی‘فی کس آمدن‘مجموعی قومی آمدن سمیت بہت سارے معاملات پر خاموشی اختیار کیئے رکھتی ہیںپیٹرولیم مصنوعات کا ذکر کرتے ہوئے حکمران خطے کے دو ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہیں جہاں وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کے دعووں کے مطابق پاکستان سے ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں کہیں زیادہ ہیں وزیر خزانہ شوکت ترین تو پاکستان کا موازانہ برطانیہ سے کرچکے ہیں .

اس سلسلہ میں ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت80ڈالر فی بیرل سے تجاوزکرچکی ہے جوکہ بہت بڑا اضافہ ہے اور اس کے اثرات یقینی طور پر دنیا بھر پر مرتب ہورہے ہیںلیکن دنیا کی امیرترین کارپوریشنزاور چند ہزارافرادجو دنیا کی مجموعی دولت کے80فیصد سے بھی زائد پر قابض ہیں وقت آگیا ہے کہ وہ دنیا کو کچھ لوٹائیں بھی کیونکہ دولت کے یہ انبار انہوں نے اسی دنیا اور اس کے باسیوں سے کمائے ہیں.

انہوں نے کہا کہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور اس کاچند افراد کی مٹھی میں آجانا انتہائی خطرناک رجحان ہے جس میں پچھلی چند دہائیوں سے غیرفطری طور پر بے پناہ اضافہ ہوا ہے پوری دنیا کو چند کاپوریٹ گروپوں نے اپنی جاگیربنارکھا ہے اگر یہ رجحان جاری رہا تو پوری دنیا میں ایک انتہائی خوفناک ردعمل آئے گا انہوں نے کہا وزارت خزانہ کے ترجمان ہوں یا وزیرخزانہ یہ عالمی ساہوکاروں کی کٹھ پتلیاں ہیں.

انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں کرپشن سے غربت کے سمندرمیں دولت جو ”جزیرے“بنے ہیں ان میں حکومتیں‘افسرشاہی سرفہرست رہی ہیں آپ ملک سے باہر کاروبار یا جائیدادیں اس لیے بناتے ہیں کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ انہوں نے قومی خزانے کے ساتھ کیا کیا ہے اور ملک کو کس طرح قرضوں میں جکڑا ہے. انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تیل‘گیس اور بجلی کی قیمتوں میں جب باقابل برداشت اضافہ ہوگا تو اس کے اثرات پوری معیشت پر ہونگے بدقسمتی سے ہماری حکومتیں منصوبہ بندی کے بغیرکام کرنے کی عادی ہیں نون لیگ کی حکومت نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے سبب کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ بند ہونے جارہے ہیں اربوں ڈالر کا کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹس ساہیوال لگادیا اس سے قبل بہاولپور کے نزدیک ریگستان میں قائداعظم سولرپاور پر اربوں روپے ضائع کیئے گئے آج وہ پاورپلانٹ بند پڑا ہے کیونکہ سولرپاورپلانٹ لگانے کے لیے ماہرین سے رائے ہی نہیں لی گئی کہ جس علاقے میں پلانٹ لگایا جارہا ہے وہ اس کے لیے موزوں بھی ہے یا نہیں؟.

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کے اثرات اس لیے بھی زیادہ مرتب ہورہے ہیں کہ ہم ڈالر کو کنٹرول نہیں کرپارہے جس سے قیمتوں میں اتنا زیادہ فرق آرہا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے گاڑیوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے بھی اقدامات نہیں کیئے گاڑیوں کا سمندر بننے سے تیل کی مد میںملک کے درآمدی بل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس کے علاوہ فضائی آلودگی کے لیے کیے جانے والے اقدامات بھی موثرثابت نہیں ہورہے کیونکہ گاڑیوں کے دھوئیں سے ہم ہزاروں کارخانوں جتنی گرین ہاﺅس گیسیں پیدا کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت حکومت کہتی ہے کہ رواں مالی سال میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 600 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے تاہم وہ صرف 5.62 روپے فی لیٹروصول کررہی ہے جبکہ دوسری جانب درآمدی مرحلے پر حکومت کسٹم ڈیوٹی اور ایڈوانس ٹیکس کی مد میں اچھا خاص ٹیکس وصول کرتی ہے.

انہوں نے کہاکہ پاکستان آج سے کچھ سال قبل 11 سے 12 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کر رہا تھا اور اب ان مصنوعات کا درآمدی بل 19 سے 20 ارب ڈالر ہو چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ امپورٹ اسٹیج پر حکومت زیادہ ٹیکس پٹرولیم مصنوعات پر حاصل کر رہی ہے حکومت کے وزیروں کی جانب سے کیے جانے والے ان دعوﺅں کے مطابق پاکستان میں ڈیزل اور پٹرول کی کم قیمت کا دنیا خاص کر دنیا اور خاص کر خطے کے دوسرے ممالک سے موازنہ صحیح ہے تاہم یاد رہے کہ یہ موازنہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان کی معیشت میں شرح نمو مستحکم نہیں تو دوسری جانب پاکستان میں آمدنی کے ذریعے سکڑ رہے ہیں.

میاں محمد ندیم نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح8 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت میں یہ شرح 4.6 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.9 فیصد، سری لنکا میں 4.6 فیصد اور نیپال میں 4 فیصد ہے انہوں نے کہا حکومت یہ موازنہ صرف پٹرول کی قیمت پر کیوں کر رہی ہے؟ حکومت کو یہ موازنہ تمام روزمرہ استعمال کی چیزوں پر کرنا چاہیے تو پھر پتا چلے گا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی کیا بلند ترین سطح ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرے ملک خاص کر خطے کے ملک پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہیں.

انہوں نے کہا حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس وقت چینی اور گندم کی قیمت بھارت اور بنگلہ دیش میں کس سطح پر ہے اور ہم اس وقت کس قدر مہنگی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں یہ موازنہ اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف پٹرول کی قیمت کو الگ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے بحیثیت مجموعی معیشت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے. انہوں نے کہا کہ ضرورت کی چیزوں کی خریداری کا تعلق قوت خرید سے ہے پاکستان میں قوت خرید کم ہوئی ہے جس کا تعلق ملک کی فی کس آمدن سے ہے پاکستان کی فی کس آمدن کا موازنہ بنگلہ دیش اور بھارت سے کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے دونوں ممالک سے کتنا پیچھے ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں بنگلہ دیش میں جی ڈی پی کے لحاظ سے فی کس آمدن 2227 ڈالر ہے اور بھارت میں 1961 ڈالر ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان میں فی کس آمدن 1279 ڈالر ہے جو خطے میں سب سے کم ہے.

انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو ایسی باتیں کہتے ہوئے شر م کرنی چاہیے خطے کے باقی ملکوں کے مقابلے میں سب سے کم قوت خرید اور مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے اس میدان میں ہم بھوٹان سے بھی موازانہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں میاں محمد ندیم نے کہا کسی ملک میں قوت خرید میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب وہاں لوگوں کی آمدنی بڑھ رہی ہواگر بھارت اور بنگلہ دیش میں پیٹرول مہنگا ہے تو وہاں پاکستان کے مقابلے میں لوگوں کی قوت خرید بھی بہت زیادہ ہے حکومت یہ بات چھپا لیتی ہے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں آمدنی کی سطح کے درمیان کتنا فرق ہے اسی طرح یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں کی معیشت میں شرح نمو میں بھی کتنا فرق ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت حقیقت یہ ہے پاکستان خراب معاشی صورتحال کا شکار ہے جو بڑھتے ہوئے مالی اور جاری کھاتوں کے خسارے کی وجہ سے ہے درآمدات بے پناہ بڑھ رہی ہیں اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا اور دوسری جانب آپ صرف بنگلہ دیش کو لیں تو اس کی برآمدات 47 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں.


Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات