شام: دمشق میں دو بم دھماکوں میں متعدد افراد ہلاک

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 21 اکتوبر 2021 10:20

شام: دمشق میں دو بم دھماکوں میں متعدد افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اکتوبر 2021ء) شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق 20 اکتوبر بدھ کی رات کو دارالحکومت دمشق میں دو بم دھماکوں میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور تین مزید زخمی ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ دونوں بم اس بس میں نصب تھے جو فوجیوں کو لے کر جا رہی تھی۔

شام کی سرکاری نیوز ایجنسی صنعا کے مطابق دارالحکومت دمشق کے صدر پل کے پاس سے جب مذکورہ بس گزر رہی تھی اسی وقت دھماکے کیے گئے۔

شام کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کے مطابق فوج کی انجینیئر یونٹ نے ایک تیسرے بم کو ناکارہ بنا دیا۔

شامی حکومت کی طرف سے عسکریت پسندوں پر نظر رکھنے والی ایک خفیہ ایجنسی ایس آئی ٹی ای نے دیر رات اپنے ایک بیان میں کہا کہ جنگجوؤں کے ایک گروپ قاصیؤن نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم دیگر سرکاری حکام کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔

(جاری ہے)

قاصیؤن گروپ وقتا ًفوقتا ًشامی حکومت کے اہداف کو نشانہ بناتا رہا ہے۔

دہشت گردی کا حملہ

شام کی حکومت نے اسے ''دہشت گردی'' کا حملہ قرار دیا ہے۔ سن 2018 میں بشار الاسد کی فوج نے حکومت سے بر سر پیکار شامی جنگجوؤں کو دمشق شہر سے نکال باہر کر دیا تھا اور اس کے بعد سے دارالحکومت میں اس طرح کے بم دھماکے شاذ و نادر واقعات ہیں۔

سن 2017 میں اسلامک اسٹیٹ نامی شدت پسند تنظیم نے دمشق کے جسٹس پیلیس میں ایک بڑا دھماکہ کیا تھا جس میں کم سے کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کے بعد سے دارالحکومت میں یہ اب تک کا مہلک ترین حملہ ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ حملہ اس وقت ہوا جب شہر میں کافی بھیڑ تھی اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

مشرقی شام میں رواں برس سرکاری افواج اور اس کی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایسے متعدد حملے ہوتے رہے ہیں۔

اطلاعات کے

مطابق شام کے مختلف علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ شدت پسنداب بھی سرگرم ہیں اور ان حملوں کے لیے انہی پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔

باغیوں کے قبضہ والے علاقوں میں بھیانک گولہ باری

شام میں بدھ کے روز ہی ایک اور پرتشدد واقعے میں کم سے کم دس افراد اس وقت ہلاک ہو گئے جب سرکاری افواج نے باغیوں کے زیر قبضہ ادلب کے شمال مغربی شہر اریحہ پر زبردست گولہ باری کی۔

اپوزیشن گروپ سے وابستہ برطانیہ میں مقیم انسانی حقوق کے ایک تنظیم سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سرکاری افواج نے راکٹوں سے ایک مصروف ترین علاقے کو اس وقت نشانہ بنایا جب بچے اسکول جا رہے تھے۔ اس کے مطابق اس حکومتی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔

شام میں خانہ جنگی اور تشدد کا آغاز سن 2011 میں ہوا تھا، جس کے متعلق بشار الاسد کی حکومت کا دعوی ہے کہ اب وہ دور ختم ہو چکا ہے۔

اس وقت سے شام کی اس خانہ جنگی میں اب تک تقریباً ساڑھے تین سے ساڑھے چار لاکھ تک افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس جنگ کی وجہ سے ملک کی تقریباً نصف آبادی بے گھر ہو چکی ہیں جس میں سے تقریبا ًپچاس لاکھ افراد ملک سے باہر پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)