آئی ایم ایف کا کمرشل بینکوں میں سرکاری اکاؤنٹس بندکرنے کا مطالبہ درست ہے:میاں زاہد حسین

عالمی ادارے کی ڈیمانڈ کڑوی نہیں بلکہ میٹھی گولی ہے۔ اربوں روپے کی بچت ہو گی۔

پیر 25 اکتوبر 2021 17:24

آئی ایم ایف کا کمرشل بینکوں میں سرکاری اکاؤنٹس بندکرنے کا مطالبہ درست ..
کراچچ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 اکتوبر2021ء)   نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کمرشل بینکوں میں سرکاری اداروں کے اکاؤنٹس بند کرکے انھیں مرکزی بینک میں منتقل کرنے کا مطالبہ جائز اور ملکی مفاد میں ہے جسے مان لینا چائیے جس سے حکومت کو اربوں روپے کی بچت ہو گی۔

یہ عالمی ادارے کی کڑوی گولی نہیں بلکہ میٹھی گولی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں نے ملکی قوانین اور وزارت خزانہ کی ہدایات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمرشل بینکوں میں پانچ ہزارسے زیادہ اکاؤنٹس کھلوارکھے ہیں جس میں کئی سو ارب روپے موجود ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں متعدد قباحتیں ہیں جس وجہ سے اسکاخاتمہ ضروری ہے اس لئے آئی ایم ایف کے مطالبے کو تسلیم کیا جائے۔

کمرشل بینکوں کے مابین سرکاری اداروں کے فنڈز حاصل کرنے کے لئے مسابقت رہتی ہے جس میں کرپشن کا امکان ہوتا ہے ۔ کمرشل بینک سرکاری اداروں کو انکے ڈیپازٹ پر چار فیصد تک سود ادا کرتے ہیں اور اسی سرکاری رقم کو حکومت کو قرض کی مد میں دے کر دس فیصد تک سود وصول کرتے ہیں جس سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ کئی اداروں کے ارباب اختیار سود کمانے کے لئے سرکاری فنڈر کو ذاتی اکاؤنٹس میں جمع کروا دیتے ہیں جبکہ کئی ادارے سود کمانے کے لئے منصوبوں کو تاخیر کا شکار کر دیتے ہیں۔

بعض ادارے تو سرکاری فنڈ کی مدت ختم ہونے سے قبل اسے نجی پارٹیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دیتے ہیں اور بعد ازاں دوبارہ وصول کر لیتے ہیں اس لئے اس سلسلہ کا جو ایک کاروبار بن چکا ہے کا خاتمہ ضروری ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض کی کڑوی گولی اسی وقت لیتی ہے جب معیشت کے حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی ہو۔ معاشی حالت کی خرابی ایک حد تک تو برداشت کر لی جاتی ہے لیکن جب معاملات معاشی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہوں تو حکمران اس خرابی کو روکنے کی کوشش میں کشکول اٹھا لیتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے ماہرین قرض لینے والے ممالک کو جو شرائط بتاتے ہیں اس میں فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جو معاشی عدم استحکام کو جس میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اخراجات وغیرہ شامل ہوں کو ختم کیا جا سکے تاہم اس سے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میںآ ئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود ان شرائط پرمکمل عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے جس سے معاشی حالت خراب اور عالمی ادارے کی شرائط مذید سخت ہو جاتی ہیں جس کا سارا ملبہ عوام پر ہی گرتا ہے۔