پاکستانی صوبے بلوچستان کا سیاسی بحران

DW ڈی ڈبلیو پیر 25 اکتوبر 2021 19:20

پاکستانی صوبے بلوچستان کا سیاسی بحران

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اکتوبر 2021ء) وزیراعلی جام کمال خان کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد صوبائی مخلوط کابینہ تحلیل کردی گئی ہے۔ اج بروز پیر ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں رکن اسمبلی سردار عبدالرحمن کیتھران نے وزیراعلیٰ کے خلاف جمع کرائی گئی مشترکہ تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔

بلوچستان کا پراسرار ’شہر روغاں‘ یا گوندرانی کی غاریں

اسمبلی اجلاس کے بعد اسپیکر قدوس بزنجو بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔

صوبائی اسمبلی میں کثیر نشستوں کی حامل جماعت ، بلوچستان عوامی پارٹی نے نئے قائد ایوان کے عہدے کے لئے عبدالقدوس بزنجو جبکہ اسپیکر کے عہدے کے لئے جان محمد جمالی کا نام تجویز کیا ہے۔

جام کمال کے خلاف عدم اعتماد

سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف ان کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین اسمبلی نے 12 اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔

(جاری ہے)

جس پر رائے شماری کے لئے 25 اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ قبل ازیں اپوزیشن جماعتوں کے 14 اراکین اسمبلی نے بھی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی تاہم وہ تحریک بعض تکنیکی خامیوں کے باعث محرکین کو واپس کر دی گئی تھی۔

نئی حکومت سازی کے مراحل

بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمن کیتھران کہتے ہیں کہ صوبے میں نئی حکومت سازی کے پہلےمرحلے میں اسپیکر کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کئے جائیں گے۔

کوئٹہ میں میڈٰیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " ان تمام معاملات پر اس وقت مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، چونکہ سابق وزیرعلیٰ بھی اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے بلوچستان عوامی پارٹی سے نامزد کیا گیا تھا اسی لئے اس بار نئے وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے بھی پارٹی کے رکن اسمبلی قدوس بزنجو کے نام پر اتفاق کیا گیا ہے۔"

بلوچستان کی ساحلی پٹی: جزائر کے ابھرنے ڈوبنے کا سلسلہ

رحمن کیتھران کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی نئی حکومت عوامی امنگوں کی ترجمان ہو گی اور صوبے کو بحرانوں سے نکالنے کے بھرپور اقدامات کرے گی۔

جام کمال کی ناقص کارکردگی

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی، ثناء اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ جام کمال کی ناقص کارکردگی کے بدولت صوبہ شدید بحرانوں سے دوچار ہوا ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں ںے کہا،"دیکھیں یہ ایک خوش ائند عمل ہے کہ بلوچستان میں ایک آمر وزیر اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوا ہے۔ اس شخص نےنہ صرف صوبے میں ناقص طرز حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا بلکہ ان کی وجہ سے صوبے کی روایات بھی پامال ہوئیں، ان کی وجہ سے اسمبلی میں بکتر بند گاڑیاں زبردستی داخل کرائی گئیں، اراکین اسمبلی کو بلاوجہ گرفتار کرایا گیا۔

"

ثناء اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ، "بلوچستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں جب بھی لوگ اقتدار کا حصہ بنتے ہیں عوام سے کئے گئے وعدے بھول جاتے ہیں، قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ صرف ناقص طرز حکمرانی اور عوام دشمن پالیسوں کے بدولت یہاں تک آ پہنچا ہے، مرکزی حکومت بھی بلوچستان کو ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہے، صوبے میں نئی حکومت سازی کے عمل میں زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔

"

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی، نو عسکریت پسند ہلاک

نیا اسپیکر

اسپیکر کے مستعفی ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے نئے اسپیکر کے لئے رکن اسمبلی جان محمد جمالی کے نام پر اتفاق کیا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اسپیکر کے عہدے کے لئے جان جمالی کا نام اتحادی جماعتوں نے مشترکہ طور پر تجویز کیا ہے۔ حکومت سازی کے عمل میں اپوزیشن میں شامل جمعیت علمائے اسلام کے رہنماوں سےبھی مشاورت کے لئے رابطہ کیا گیا ہے۔

نئی حکومت بھی کمزور ہوگی

بلوچستان کی نئی مخلوط حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح کمزور ہوگی کیونکہ مختصر وقت میں عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتی۔کوئٹہ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں کہ جام کمال کی حکومت اس لئے بحران کا شکار ہوئی کیونکہ ان کی جماعت کے لوگ ان سے ناخوش تھے۔

ندیم خان کے بقول بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کی بر وقت تکمیل اور دیرینہ عوامی مسائل کے حل کے لئے نئی حکومتی اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی مخلوط کابینہ میں ان جماعتوں کو بھی وزارتیں دی جا سکتی ہیں جنہوں ںے جام کمال کے خلاف تحریک میں کردار ادا کیا ہے۔