اشتہار، اعتراض اور معاشرہ

DW ڈی ڈبلیو بدھ 27 اکتوبر 2021 16:20

اشتہار، اعتراض اور معاشرہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اکتوبر 2021ء) اس اشتہار کو ہتانے کی وجہ؟ ارے بھائی کیونکہ اس اشتہار میں فیب انڈیا نے اردو زبان کے الفاظ ‘جشن رواز' کا استمال کیا تھا۔فیب انڈیا کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا کہ یہ وہ ایک ہندو تہوار میں سیکولر اور مسلم نظریات کو مسلط کر رہا ہے اور اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

ٹوئٹر پر اشتہار کی خوب مذمت ہوئی اور کہا گیا کہ فیب انڈیا جیسے برانڈز کو اس طرح کی دانستہ غلطیوں کے لیے اقتصادی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کمپنی کو کہنا پڑا کہ یہ اشتہار دیوالی سے وابستہ نہیں ہے اور جلد ہی اسنے 'جھلمل سی دیوالی' عنوان سے نیا کلیکشن لانچ کیا۔ ہاں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹوئٹر پر جشن رواز ہیش ٹگ لگانے کے بعد جب سوشل میڈیا صارفین نے اس برانڈ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تو فیب انڈیا کی یہ پیشکش ٹوئٹر پر سرفہرست ٹرینڈز میں سے ایک بن گئی۔

(جاری ہے)

بہرحال، یہ نہ تو پہلا اور نہ ہی آخری برانڈ ہے جس کو دور حاضر میں ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ دباؤ میں آیا ہے۔

فیب انڈیا کے قصہ کے کچھ ہی دن بعد، ٹاور برانڈ سییٹ کے روڈ سیفٹی کے حوالے سے آگاہی اجاگر کرنے والی ایک اشتہاری مہم میں مشہور اداکار عامر خان نے لوگوں سے دیوالی کے دوران سڑکوں پر پٹاخے نہ چلانے کی اپیل کی۔

بس پھر کیا تھا، اعتراض ظاہر کیا جانے لگا کہ اس اشتہار سے بھی 'ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے'۔ کہا گیا کے آخر عامر خان دیوالی کے پٹاخوں، جن پر سپریم کورٹ نے دلی کے علاقے میں پابندی بھی لگائی تھی، ان کے بارے میں کیسے بول سکتے ہیں۔ وہ سڑک پر ادا ہونے والی نماز کے بارے تو نہیں بولتے۔ یوں ٹوئٹر پر اس معاملے پر بھی گھمسان کی بحث چھڑ گئی۔

اس سے قبل، شادی کے لباس کے برانڈ مانیور کا بالی وڈ کی اداکارہ عالیہ بھٹ کو شادی کے لباس میں دکھانے والا ایک اشتہار بھی ایک تنازعہ کھڑا کرنے کا باعث بن چکا ہے۔ اس اشتہار میں 'کنیا دان کی ایک پرانی ہندو روایت پر سوال اٹھایا گیا تھا اور خواتین کے حق میں بات کرتے ہوئے ان کی پسند کی شادی پر زور دیتے ہوئے 'کنیا مان کا جدید تصور متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔

کچھ عرصہ پہلے، ٹاٹا گروپ کے زیورات برانڈ تنشق کو ایک اشتہار ہٹانے پر مجبور کیا گیا تھا جس میں ایک بین المذاہب جوڑے کو دکھایا گیا تھا۔ اس اشتہار میں مسلمان سسرالیوں کی طرف سے ہندو دلہن کے لیے منعقدہ ‘ ایک رسم چل رہی تھی۔ خوب ٹرولنگ ہوئی، دھمکیاں ملیں۔ جلد ہی تنشق نے اپنے سٹورز اور ملازمین کو پیش خطرات کے پیش نظر اشتہار بند کر دیا۔

2019 میں صرف ایکسل کے ہولی پر نشر کیے گئے ایک خوبصورت اور دل چھو لینے والے اشتہار کو بعض گروپوں کی جانب سے اسی طرح کی تنقید کا نشانا بنایا گیا تھا کیونکہ اس میں دو مختلف مذاہب کے بچوں کو رنگوں کا تہوار مناتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر طنز نگاروں نے ان ٹرینڈز کو جشن بائیکاٹ کہا تو کسی نے اقتصادی دہشت گردی۔ حساسیت اور تخلیقی اظہار کی آزادی کی باتیں بھی ہوئیں۔

لیکن عدم برداشت سب مثبت باتوں پر ہاوی ہی نظر آئی۔

اشتہارات آن لائن یا آف لائن ہوں، دونوں طرح سے یہ کسی بھی برانڈ کی تشہیر کے اہم آلات ہوتے ہیں۔ پر یہ اشتہارات دراصل کس چیز پر مبنی ہوتے ہیں؟ وہ روزمرہ کے حالات اور منظر ناموں کی عکاسی کرتے ہوئے لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ایک خاص برانڈ ان کی روزمرہ زندگی کے ساتھ کس طرح فٹ بیٹھتا ہے۔

یعنی اشتہارات معاشرے کی نبض کو سمجھتے ہیں۔ پر کیا واقعی؟ خاص طور پر آج کل جب ہمارے سیکولر ملک میں آبادی کی ایک بڑی تعداد کو مختلف نسلی یا مذہبی برادریوں کے افراد کے ساتھ پرامن آپسی رواداری کے خیال سے بھی اپنے وجود کے لیے خطرا لگنے لگتا ہے۔

نتیجۃً ہم آہنگی کی قدیم وراثت پر مبنی ایسی اشتہاری فلموں کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور ٹوئٹر اور سماجی رابطوں کی سیب سائٹس رائے کے تصادم کا میدان جنگ بن جاتے ہیں۔

سند رہے کے سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ ایک ہتھیار ہے جس کے سامنے بڑے بڑے بھی گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔ ٹرولنگ سب سے تیز رفتار ٹرینڈ اور سب سے کارگر طریقہ ہے سیاسی فائدوں کے لیے رائے عامہ پر اثر اندوز ہونے کا، جذبات کو بھڑ کانے کا اور تنازعات پیدا کرنے کا۔

یاد یہ بھی رہے کے ایک طویل عرصے سے لوگ دیوالی کو جشن چراغاں بھی کہتے آئے ہیں، مل جل کر مناتے آئے ہیں۔

ہمارے محلے میں آج بھی کئی مسلمان کمہار دوالی کے دئیے اور مٹی سے بنے گنیش لکشمی کے خوبصورت بت بناتے ہیں اور بیچتے ہیں۔

علاوہ اس کے، جس انگریزی زبان میں یہ ٹوئٹ کیے گئے اس کے برعکس اردو بھارت کی سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے۔ یوں کہیے کے اردو اور ہندی دو جڑواں بہنوں کی طرح ہیں۔ ایک ہی گھر میں پیدا ہوئیں، ایک ہی آنگن میں پروان چڑھیں۔

الفاظ آپس میں ایسے جڑے ہوئے ہیں کے الگ کیے ہی نہیں جا سکتے

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 22 اکتوبر کو قوم سے خطاب کیا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ دیکھا جائے کے تقریر میں کوئی اردو لفظ تو نہیں ہے۔ میں آسانی سے کم از کم 50 الفاظ تو گن ہی پائی۔

اظہار راے کی آزادی، زبانوں کے، الفاظ کے استعمال کی آزادی زندہ باد۔