فیس بک نے بھارت میں مسلم مخالف مہم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، رپورٹ

ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے منسلک فیس بک اکاؤنٹس بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور مسلم مخالف بیانیے کو فروغ دیتے ہیں

جمعہ 12 نومبر 2021 14:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 نومبر2021ء) ایک امریکی ڈیٹا انجینئر،سائنسدان اور پروڈکٹ مینیجرفرانسس ہوگن کے انکشافات نے بھارت میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کو نظر انداز کرنے اور اس سلسلے میں اپنی پالیسیوں کو ایک منظم طریقے سے نافذ کرنے پر فیس بک کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے آج جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرانسس ہوگن نے انکشاف کیا ہے کہ فیس بک نے بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کو خوش کرنے کیلئے مسلم مخالف مواد کو سائٹ پر رہنے کی اجازت دی۔

فرانسس ہوگن کی طرف سے افشا کی گئی دستاویزات میں بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات پر کمپنی کی رپورٹس کا ایک ذخیرہ شامل ہے۔فرانسس ہوگن نے انکشاف کیا کہ ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے منسلک فیس بک اکاؤنٹس بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور مسلم مخالف بیانیے کو فروغ دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا آر ایس ایس کے صارفین کی طرف سے مسلمانوں کا سور اور کتے سے موازنہ کرنے والی متعدد غیر انسانی پوسٹس موجود ہیں۔

فیس بک کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی برسوں سے اس مذموم مہم سے آگاہ ہے لیکن اس نے اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ کے ایم ایس رپورٹ میں کہا گیا کہ بہت سے ڈیجیٹل ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک ان معاملات کے حوالے سے کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے جن میں نریندر مودی کی قیادت والی بھارتی حکومت کے ارکان ملوث ہیں۔رپورٹ میں اس بات کی مذمت کی گئی کہ فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر بھارت میں مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کے کچھ اعلیٰ عہدیدار بی جے رہنمائوں کے بہت قریب ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی اور فیس بک کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر مارک زکربرگ کے درمیان قریبی تعلقات ہیں اوربھارت میں مسلمانوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے خلاف نفرت انگیز مہم عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے۔ کے ایم ایس رپورٹ میں وال سٹریٹ جرنل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت میں فیس بک نفرت انگیز تقاریر، غلط معلومات اور اشتعال انگیز پوسٹس خاص طور پر مسلم مخالف مواد کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کر رہا ہے۔