طالبان شیعہ کمیونٹی کے محافظ لیکن اعتماد کی کمی

DW ڈی ڈبلیو منگل 16 نومبر 2021 18:00

طالبان شیعہ کمیونٹی کے محافظ لیکن اعتماد کی کمی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 نومبر 2021ء) کابل میں ایک شیعہ مسجد کے باہر طالبان کے مسلح فائٹرز چوکس ہو کر کھڑے ہوئے ہیں تاکہ اندر موجود ہزارہ کمیونٹی کے افراد سکون کے ساتھ نماز ادا کر سکیں۔ طالبان اور ہزارہ کمیونٹی کے درمیان یہ ایک 'نیا رشتہ‘ ہے کیوں کہ ماضی میں ایک عرصے تک طالبان کے حملہ آور اس کمیونٹی کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

تاہم اب ہزارہ کمیونٹی کے سب سے بڑے دشمن داعش یا 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو ہیں اور طالبان اسی وجہ سے اس کمیونٹی کی حفاظت پر معمور ہیں۔

ابو الفضل العباس کے باہر ایک ہزارہ محافظ سہراب بھی موجود ہے۔ اس کا ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ کام کرتے ہوئے مطمئن ہیں، ''وہ اب ہماری مسجد میں کبھی کبھار نماز بھی ادا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘ اس ہزارہ محافظ کا مکمل نام سکیورٹی وجوہات کی بناء پر نہیں بتایا جا رہا۔

تاہم ہر کوئی طالبان سے ابھی بھی مطمئن نہیں ہے۔ وہاں پر سید عقیل بھی اپنی اہلیہ اور آٹھ سالہ بیٹی کے ساتھ موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان ابھی بھی جہادی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ جو یہاں آتا ہے، تو اسے ابھی بھی یہ محافظ کم اور جہادی زیادہ لگتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر حلیہ دیکھا جائے تو ابھی بھی طالبان اور داعش کے جنگجوؤں میں فرق کرنا مشکل ہے۔‘‘

اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان خود کو اعتدال پسندوں کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ماضی میں جب طالبان کی حکومت آئی تھی، تو وہ بہت مختلف تھے اور اس وقت ہزارہ کمیونٹی کو ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔

طالبان خود کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ملک کی اقلیتوں کی حفاظت کریں۔

طالبان کا خوف برقرار

دوسری جانب بہت سے ہزارہ اب بھی شک و شبہات کے شکار ہیں۔ ان کے مطابق طالبان کی زیادہ تر تعداد پشتون ہے اور وہ کبھی بھی انہیں برابر کے افغان تسلیم نہیں کریں گے۔ ہزارہ کمیونٹی کے رہنما کئی مرتبہ طالبان قیادت سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور انہیں حکومت میں شامل کرنے کی اپیل بھی دہرا چکے ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کا فی الحال کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آیا۔

کئی ہزارہ افراد کے مطابق انفرادی سطح پر متعدد طالبان جنگجو اب بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان کسی بھی وقت اپنی پالیسی تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک ہزارہ مولوی محمد جواد کا کہنا تھا، ''ماضی کے مقابلے میں طالبان کچھ بہتر ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ایک یا یکساں قانون نہیں ہے۔ ہر انفرادی طالب کا اپنا ایک قانون ہے۔

یہی ایک وجہ ہے کہ لوگ اب بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔‘‘

تاہم ماضی کے مقابلے میں بہت سی تبدیلیاں واضح ہیں۔ مثال کے طور پر طالبان نے شیعہ کمیونٹی کو اپنی تمام تر مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت فراہم کر رکھی ہے اور اس میں عاشور بھی شامل ہے۔

ہتھیاروں کی واپسی اور طالبان کے اقدامات

طالبان نے ابتدائی طور پر ہزارہ کمیونٹی سے ہتھیار ضبط کر لیے تھے لیکن داعش کے خونریز حملوں کے بعد طالبان نے زیادہ تر کیسز میں ہتھیار واپس کر دیے ہیں تاکہ یہ کمیونٹی اپنی حفاظت خود بھی کر سکے۔

جمعے کے روز طالبان کے فائٹر ہزارہ کمیونٹی کی تقریبا ہر مسجد کے باہر حفاظت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اس حوالے سے کہنا ہے، ''ہم سب کو ایک محفوظ ماحول فراہم کر رہے ہیں، خاص طور پر ہزارہ کمیونٹی کو۔ ان سب کو افغانستان میں ہی رہنا چاہیے، ملک کو چھوڑ کر جانا کوئی اچھی آپشن نہیں ہے۔‘‘

بین الاقوامی برادری طالبان پر دباؤ ڈالے ہوئے ہے کہ وہ قومی حکومت تشکیل دیتے ہوئے اقلیتوں کو بھی اس میں شامل کریں۔

طالبان کی کابینہ میں تقریبا سبھی مرد ہیں اور ان کا تعلق بھی ان کی اپنی ہی تحریک سے ہے۔

انتظامیہ میں اعلیٰ ترین درجے کا جو عہدہ ایک ہزارہ کمیونٹی کے شخص کو دیا گیا ہے، وہ نائب وزیر صحت کا ہے۔چند ہزارہ صوبائی عہدوں پر فائز ہیں لیکن یہ وہ ہزارہ ہیں، جو بہت پہلے طالبان تحریک میں شامل ہو گئے تھے اور انہی کے نظریات کے حامی ہیں۔

ایک سابق رکن پارلیمان علی اکبر جمشیدی کا کہنا تھا، ''ہزارہ کمیونٹی کو کابینہ کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں میں شامل کیا جانا چاہیے، ''طالبان ہم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے پاس مستقل کی حکومت تشکیل دینے کا موقع موجود ہے لیکن وہ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔‘‘

ا ا / ع ح ( اے پی)