پاکستان سے ہیکرز نے سابقہ افغان حکومت سے منسلک افراد کو نشانہ بنایا، فیس بک

ہدف بنائے جانے والوں میں کابل میں حکومت، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک افراد شامل ہیں،بیان

بدھ 17 نومبر 2021 12:27

پاکستان سے ہیکرز نے سابقہ افغان حکومت سے منسلک افراد کو نشانہ بنایا، ..
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 نومبر2021ء) فیس بک کے خطروں کی تحقیقات کرنے والوں نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دوران پاکستان سے ہیکرز نے گزشتہ حکومت سے تعلق رکھنے والے افغان شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے فیس بک کا استعمال کیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق فیس بک کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی انڈسٹری میں سائیڈ کاپی کے نام سے معروف گروپ نے میلویئر والی ویب سائٹس کے لنک شیئر کیے جس سے لوگوں کی ڈیوائسز کی نگرانی کی جاسکتی تھی۔

ہدف بنائے جانے والوں میں کابل میں حکومت، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک افراد شامل تھے۔فیس بک نے بتایا کہ اگست میں سائیڈ کاپی کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا کمپنی کا کہنا تھا کہ گروپ نے اہداف کو جھانسہ دیے کر فشنگ لنکس پر کلک کرنے یا بدنیتی پر مبنی چیٹ ایپس کو ڈان لوڈ کروانے کے لیے رومانوی جھانسے کے طور پر نوجوان خواتین کی فرضی شخصیتیں تخلیق کیں۔

(جاری ہے)

کمپنی کا کہنا تھا کہ انہوں نے قانونی طور پر جائز ویب سائٹس میں مداخلت کی تا کہ لوگوں کی فیس بک اسناد میں رد وبدل کرسکیں۔فیس بک کے سائبر جاسوسی کی تحقیقات کے سربراہ مائیک ولیانسکی نے کہا کہ خطرے کے محرک کے ہدف کے بارے میں قیاس آرائی کرنا ہمارے لیے ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، ہم نہیں جانتے کہ کس پر حملہ ہوا یا اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلا۔فیس بک، ٹوئٹر انک، الفابیٹ انک کے گوگل اور مائیکرو سافٹ کارپوریشن کی لنکڈ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک پر طالبان کے قبضے کے دوران افغان صارفین کے اکانٹ لاکڈ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

فیس بک کا کہنا تھا کہ ہیکنگ مہم میں اپریل سے اگست کے عرصے میں تیزی آئی لیکن کمپنی نے افغانستان میں اپنے ملازمین کے حفاظتی خطرات اور نیٹ ورک کی مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت کی وجہ سے پہلے اسے بے نقاب نہیں کیا۔کمپنی کا کہنا تھا کہ اس نے آپریشن کو ختم کرنے کے وقت امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ معلومات شیئر کی تھیں جو بظاہر وسائل سے مالامال اور مستقل دکھائی دیا۔

تفتیش کاروں نے یہ بھی کہا کہ فیس بک نے گزشتہ ماہ دو ہیکنگ گروپس کے اکانٹس کو غیر فعال کر دیا تھا جنہیں اس نے شام کی فضائیہ کی انٹیلی جنس سے منسلک قرار دیا۔فیس بک کا کہنا تھا کہ سریئن الیکٹرانک آرمی کے نام سے ایک گروپ نے حکومت کے مخالف انسانی حقوق کے رضاکاروں، صحافیوں اور دیگر افراد کو نشانہ بنایا جبکہ اے پی ٹی-سی-37 نامی گروپ نے فری سیریئن آرمی اور اپوزیشن قوتوں می شامل ہونے والے سابق فوجیوں کو نشانہ بنایا۔کمپنی کے عالمی خطرات کو روکنے والے شعبے کے سربراہ ڈیوڈ اگرانووِچ نے کہا کہ شام اور افغانستان کے کیسز ظاہر کرتے ہیں کہ سائبر جاسوسی گروپوں نے تنازعات کے دوران غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھایا جب لوگ ہیرا پھیری کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔